ایمان کا لفظ امن سے مشتق ہے، جس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایمان لا کر آدمی اپنے آپ کو آخرت کے عذاب سے بچا لیتا ہے، ایمان سے مراد اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی اُلوہیت و وحدانیت کو تسلیم کرنا، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برحق رسول اور سارے انبیاء و مرسلین میں سب سے آخری نبی اور رسول تسلیم کرنے کو کہتے ہیں اور عقائد کو قبول کرنے والے کو صاحبِ ایمان کہتے ہیں۔(صحیح بخاری شریف مترجم، جلد اول، کتاب الایمان، ص 109)

اللہ عزوجل کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمیں انسان اور مسلمان بنایا اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا، ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا دامنِ کریم ہمارے ہاتھوں میں آیا، یقیناً آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام میں سب سے افضل ہیں اور آپ کے صدقے میں آپ کی امت تمام پچھلی امتوں سے افضل ہے، یہ سب ایمان کی بدولت ہے۔

اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں مؤمنوں کو جگہ بہ جگہ بشارتیں سنائی ہیں۔

1۔اللّٰہ عزوجل سورہ بقرہ، آیت 25، پارہ 1 میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ کنزالایمان :"اور خوشخبری دے انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے کہ ان کے لئے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں رواں، جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا،صورت دیکھ کر کہیں گے یہ تو وہی رزق ہے، جو ہمیں پہلے ملا تھا اور وہ صورت میں ملتا جلتا انہیں دیا گیا اور ان کے لئے ان باغوں میں ستھری بیبیاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔"

تفسیر صراط الجنان: اس آیت کریمہ میں ایمان والوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے کہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے، ان کے لئے جنت کی بشارت ہے۔

2۔اللہ عزوجل سورہ بقرہ، آیت 119 میں فرماتا ہے:ترجمہ کنزالایمان:"بے شک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا، خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور تم سے دوزخ والوں کا سوال نہ ہوگا۔" اس آیت مبارکہ میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت کی خوشخبری دینے والے اور دوزخ سے ڈرانے کی خبریں دینے والے بنا کر بھیجا اور فرمایا کہ اگر آپ کی تبلیغ کے باوجود اگر کوئی جہنم میں جاتا ہے تو اس کے متعلق آپ سے سوال نہ ہوگا، اسی طرح قرآن پاک میں ایک اور مقام پر اللہ عزوجل نے دین کے بارے میں بتاتے ہوئے فرمایا:

3۔پارہ2، سورہ بقرہ، آیت 213:ترجمہ کنزالایمان:" لوگ ایک دین پر تھے، پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری کہ وہ لوگوں میں ان کے اختلافوں کا فیصلہ کردے اور کتاب میں اختلاف انہیں نے ڈالا، جن کو دی گئی تھی بعداس کے ان کے پاس روشن حکم آچکے آپس کی سرکشی سے تو اللہ نے ایمان والوں کو وہ حق بات سوجھا دی, جس میں جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے، اور اللہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھائے۔" (سورہ بقرہ، آیت 213)

حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے حضرت نوح علیہ السلام کے عہد تک، سب لوگ ایک دین اور ایک شریعت پر تھے، پھر ان میں اختلاف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، یہ بعثت میں پہلے رسول ہیں۔ (خازن، البقرہ، تحت الآیہ 213، 150/1، صراط الجنان، حصہ1، ص 328)

رسولوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا، بہت سے انبیاء اور رسولوں کو کتابیں اور صحیفے عطا کئے گئے۔

4۔پارہ3، آیت 45:ترجمہ کنزالایمان:"اور یاد کرو جب فرشتوں نے مریم سے کہا، اے مریم اللہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمے کی، جس کا نام مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا رو دار ہوگا اور دنیا اور آخرت میں اور قرب والا۔"اس آیت میں اِنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكِ ( بیشک اللہ تجھے بشارت دیتا ہے) کہ تحت فرماتا ہے کہ"حضرت عیسی علیہ السلام کو کلمۃ اللہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ کُن سے ہوئی، باپ اور ماں کے نطفے سے نہ ہوئی۔

5۔پارہ6، سورہ النساء، آیت165:ترجمہ کنزالایمان:"رسول جو خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے کہ رسولوں کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کو کوئی عذر نہ رہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔"

رسولوں کی تشریف آوری کا مقصد نیک اعمال پر ثواب کی بشارت اور بُرے اعمال پر عذاب سے ڈرانا ہے۔

6۔پارہ10، سورۃ التوبہ، آیت21،22:ترجمہ کنزالایمان:"ان کا ربّ انہیں خوشی سناتا ہے، اپنی رحمت اور اپنی رضا اور ان باغوں کی، جن میں انہیں دائمی نعمت ہے، ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، بیشک اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے۔"(سورہ توبہ، آیت 21/22)

اس آیت مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ ان کا ربّ انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور جنتوں کی بشارت دیتا ہے، علامہ علی بن محمد خازن رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:"یہ اعلٰی ترین بشارت ہے، کیونکہ مالک کی رحمت ورضا بندے کا سب سے بڑا مقصد اور پیاری مرادہے۔"(خازن، التوبہ، تحت الآیۃ 21، 224/2)

اس آیت میں ایمان کو قبول کرنے کے بعد ہجرت کرنے اور اپنی جان و مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لئے تین بڑی پیاری بشارتیں جمع کی گئی ہیں:"انہیں اللہ کی رحمت اور رضا نصیب ہوگی، وہ جنت میں ہمیشہ کے لئے قیام کریں گے۔"(مسند امام احمد، حدیث ثوبان 8/328، حدیث22464، تفسیر صراط الجنان، ج4، پ10، سورۃ التوبہ)

7۔پارہ12، سورہ ھود، آیت11:ترجمہ کنزالایمان:"مگر جنہوں نے صبر کیا اور اچھے کام کئے، ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔"

اس آیت کا معنی یہ ہے" لیکن وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا اور اچھے کام کئے تو وہ ان کی طرح نہیں ہیں، کیونکہ انہیں جب کوئی مصیبت پہنچی تو انہوں نے صبر سے کام لیا اور اور کوئی نعمت ملی تو اللہ کا شکر ادا کیا تو ان کے لئے جنت ہے۔"

8۔ترجمہ کنزالایمان:"بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور اپنے ربّ کی طرف رجوع لائے تو وہ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔" (سورہ ھود، آیت 23)

اس آیت میں اہلِ ایمان کی دنیوی حالات اور اخروی فوائد بیان فرمائے کہ جو لوگ ایمان لائے، اور نیک عمل کئے اور اس بات سے ڈرتے رہے کہ کہیں ان کے اعمال میں کوئی نقص یا کمی ہو گئی ہو، جن لوگوں میں یہ تین اوصاف ہوں تو وہ جنتی ہیں اور وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔"

9۔ترجمہ کنزالایمان:"اور اس کی بی بی کھڑی تھی، وہ ہنسنے لگی تو ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری دی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی، بولی ہائے خرابی کیا میرے بچہ ہوگا اور میں بوڑھی ہوں اور یہ ہیں میرے شوہر بوڑھے، بیشک یہ تو اچنبھے کی بات ہے۔"(پ 12، سورہ ھود، آیت 72)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ حضرت سارہ پروہ ان کی باتیں سن رہی تھیں تو آپ ہنسنے لگیں۔

10۔ترجمہ کنزالایمان:"پھر جب خوشی سنانے والا آیا، اس نے وہ کُرتا یعقوب کے منہ پر ڈالا، اسی وقت اس کی آنکھیں پھر آئیں، کہا میں نہ کہتا تھا کہ مجھے اللہ کی وہ شانیں معلوم ہیں، جو تم نہیں جانتے۔"(پ 13، سورہ یوسف، آیت 96)

جمہور مفسرین فرماتے ہیں کہ خوشخبری سنانے والے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی یہودا تھے، یہودا نے کہا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس خون آلودہ قمیض بھی میں ہی لے کر گیا تھا، میں نے ہی کہا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا، میں نے انہیں غمگین کیا تھا، اس لئے آج کُرتا بھی میں ہی لے کر جاؤں گا اور حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگانی کی فرحت انگیز خبر بھی میں ہی سناؤں گا۔"(تفسیر کبی یوسف، تحت الآیۃ 96، 6/508 جمل مع جلالین یوسف تحت الآیۃ 96, 80/4 ،تفسیر صراط الجنان، ج5، ص 57)

اسی طرح قرآن پاک میں کثیر مقامات پر ایمان والوں کو بشارت دے دی گئی ہے جنت کی، ان باغوں کی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، کیونکہ ایمان والا ہونا ہی اصل کامیابی ہے اور ایمان حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الایمان آپ کی محبت کا نام ہے۔

اللہ عزوجل ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پکی محبت عطا فرمائے اور اتنی محبت کے اپنے ماں ،باپ، بہن بھائی سب سے بڑھ کر ہو اور جنت الفردوس میں جانے کا سبب بن جائے۔اللھم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم