ایمان اور اسلام کی اہمیت: یہ دنیا اللہ عزوجل کی حقیقی مِلک ہے، وہی اس زمین کا شہنشاہ اور تمام کائنات کا حاکمِ مطلق ہے اور اس نے اس دنیا میں دینِ اسلام کی پیروی کا حکم دیا ہے، چنانچہ اللہ ربّ العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ١۫ ترجمہ کنزالایمان:"بے شک اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہی ہے۔"

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ دینِ اسلام ہی وہی دینِ حق ہے، جس پر عمل کرکے انسان نجات حاصل کرسکتا ہے اور اسی طرح اگر انسان نیک اعمال کرتا رہے اور اس کے دل میں ایمان نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی وہ نیک اعمال اسے نجات دلاسکتا ہے ۔

اور قرآن کریم میں ایمان والوں کے لئے جگہ جگہ بشارتیں سنائی گئی ہیں۔

1: اللہ کریم قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًاؕ۶۹ترجمہ کنزالایمان:"اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا، جن پر اللہ نے انعام فرمایا، یعنی انبیاء، صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔"(پ5، النساء:69)

اللہ عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والوں کو بطورِ انعام انبیاء کرام علیہم السلام صدیقین و شہداء کی مصاحبت عطا کی جائے گی اور بلاشبہ یہ کسی نعمت سے کم نہیں، اس لئے چاہئے کہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے، کیونکہ اللہ پاک نے اطاعت کرنے والے مؤمنین کو بعد اَز وفات نیک اور اپنے برگزیدہ بندوں کی صحبت عطا کرنے کی خوشخبری سنائی ہے۔

2:قرآن کریم میں اللہ عزوجل کا فرمان ہے:قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۳۱ ترجمہ کنزالایمان:"اے محبوب! آپ فرمائیے(انہیں کہ) اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو،( تب) محبت فرمانے لگے گا تم سے اللہ اور بخش دے گا تمہیں تمہارے گناہ اور اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۔"(آل عمران:31)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جو لوگ بھی اس حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہوگئے، وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے بن گئے، اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک اپنے بندوں کو بشارت دے رہا ہے کہ اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو گے تو میں تم سے محبت کروں گا اور تمہارے گناہ بخش دوں گا۔

سبحان اللہ! جس خوش نصیب کو صحیح معنوں میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی سعادت نصیب ہو جائے تو وہی فوز و فلاح کا مستحق ہے۔

خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم

خدا چاہتا ہے رضائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم

3: كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ؕ ترجمہ کنزالایمان:"تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں، بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔"(پ4، آل عمران:110)

اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر خازن میں ہے :اس امت کو "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کی بدولت تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اسی سبب سے یہ امت تمام امتوں میں سب سے بہترین اُمت ہے، پس ثابت ہوا کہ اس امت کے بہترین ہونے کی وجہ اس کے افراد کا نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا ہے۔(تفسیر خازن، پ4، آل عمران، تحت الآیۃ110/289)

اس آیت مبارکہ میں اللہ عزوجل نے ایمان والوں کی جماعت یعنی اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین امت ہونے کی خوشخبری سنائی ہے، اللہ ہمیں اپنے منصبِ عالی کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ نبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

4:قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے باعمل یعنی عملِ صالح کرنے والے مؤمنین کو مغفرت اور بڑے ثواب کی خوشخبری سنائی ہے کہ اللہ عزوجل پارہ6، سورہ مائدہ کی آیت9 میں ارشاد فرماتا ہے:وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ١ۙ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۹ ترجمہ کنزالایمان:"اللہ نے ایمان والوں اور اچھے عمل کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔"

اس آیت مبارکہ کے تحت معرفۃ القرآن میں ہے کہ اچھے اعمال سے مراد ہر وہ عمل ہے، جو رضائے الہی کا سبب بنے، اس میں فرائض، واجبات ،سنتیں، مستحبات، جانی و مالی عبادتیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد وغیرہا سب شامل ہیں۔(معرفۃ القرآن، ج2، ص29)

5۔قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے مؤمنین اور مؤمنات کو جنت کی خوشخبری سنائی ہے،چنانچہ پارہ 10، سورہ توبہ، آیت نمبر 72 میں اللہ ربّ العزت نے ارشاد فرمایا:

وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَ مَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ١ؕ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُؒ۷۲

ترجمہ کنزالعرفان:"اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے اور عدن کے باغات میں پاکیزہ رہائشوں کا وعدہ فرمایا ہے اور اللہ کی رضا سب سے بڑی چیز ہے یہی بڑی کامیابی ہے ۔"

اس سے معلوم ہوا کہ ایمان والا ہونا کتنی بڑی سعادت ہے کہ قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے بارہا صاحبِ ایمان لوگوں کے لئے جنت کی خوشخبری سنائی ہے۔

6:قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے کامل ایمان والوں کے اوصاف بیان فرمائے اور انہی کامل ایمان والوں کو پھر بشارتوں سے بھی نوازا ہے، چنانچہ پارہ 9، سورہ انفال کی آیت نمبر3 اور4 میں ارشاد فرمایا ہے:

الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَؕ۰۰۳ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا١ؕ لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِيْمٌۚ۴

ترجمہ کنزالعرفان:"وہ جو نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں، یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لئے ان کے ربّ کے پاس درجات اور مغفرت اور عزت والا رزق ہے۔"

اس آیت مبارکہ سے ان مؤمنین کے لئے بشارت عظمیٰ سنائی گئی، جو نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ کی طرف سے عطا کردہ رزق میں سے اسی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، بلاشبہ یقیناً اللہ عزوجل ایسے بندوں کو بے پناہ محبت فرماتا ہے ۔

7:اللہ عزوجل جہاں اپنے مؤمن بندوں سے محبت فرماتا ہے، وہیں پر اگر ان مؤمن بندوں میں سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو پھر وہ نادم ہو کر اس پر توبہ کر لیں تو ان سے سچی توبہ کرنے والوں کے لئےبشارتیں بھی سناتا ہے، چنانچہ پارہ 9، سورۃ الاعراف کی آیت نمبر153 کے اندر ارشادِ ربّانی ہے۔

وَ الَّذِيْنَ عَمِلُوا السَّيِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِهَا وَ اٰمَنُوْۤا١ٞ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۱۵۳

ترجمہ کنزالعرفان:"اور وہ لوگ جنہوں نے برے عمل کئے، پھر ان کے بعد توبہ کرلی اور ایمان لے آئے تو بےشک اس توبہ اور ایمان کے بعد تمہارا ربّ بخشنے والا مہربان ہے۔"

اس آیت کریمہ کے تحت معرفۃ القرآن میں ہے :"اس آیت میں گناہ کے بعد توبہ کرنے والوں کے لئے بڑی بشارت اور اللہ کی رحمتِ بے پایاں کا ذکر ہے، نیز اس سے ثابت ہوا کہ گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ، جب بندہ اس سے توبہ کرتا ہے تو اللہ پاک اپنی رحمت و فضل سے اُن سب کو معاف فرما دیتا ہے۔"(معرفۃ القرآن، ج2، ص261)

8:اللہ عزوجل نے مؤمن بندوں کو نیک اعمال کرنے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و پیروی کرنے کے بدلے جنت کی خوشخبری سنائی ہے، چنانچہ پارہ8، سورہ اعراف کی آیت نمبر 43کے ایک جز ء میں اللہ ربّ العالمین نے ارشاد فرمایا:

وَ نُوْدُوْۤا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۴۳

ترجمہ کنزالعرفان:"اور انہیں یہ ندا کی جائے گی کہ یہ جنت ہے، تمہیں تمہارے اعمال کے بدلے اس کا وارث بنا دیا گیا ہے۔"

اس آیت مبارکہ میں جنت کو میراث فرمایا گیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ میراث اپنی محنت و کمائی کی وجہ سے نہیں ملتی، اس طرح جنت بھی اللہ عزوجل کی رحمت و فضل سے ملے گی۔

اللہ کی رحمت سے تو جنت ہی ملے گی

اے کاش محلے میں جگہ ان کو ملی ہو

9:اللہ عزوجل نے مؤمنین کو دنیا میں تو بے شمار خصائص عطا فرمائے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی نعمتوں کے عطا کرنے کی خوشخبری سنائی ہے، چنانچہ پارہ 8، سورہ اعراف، آیت نمبر32 کے جزء میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے :

قُلْ هِيَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ ترجمہ کنزالعرفان:"تم فرماؤ یہ دنیا ایمان والوں کے لئے ہے، قیامت میں تو خاص انہی کے لئے ہوگا۔"

10:اللہ عزوجل مؤمنین کو اپنی مدد اور جنت کی بشارتیں جگہ جگہ سناتا ہے، حقیقت میں یہ اسی کی رحمت اور اسی کا فضل ہے کہ ایمان والوں کے لئے قرآن کریم میں اتنی بشارتوں کا ذکر ہے، چنانچہ پارہ8، سورۃ الانعام کی آیت نمبر127 میں ارشادِ ربانی ہے :

لَهُمْ دَارُ السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ هُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۱۲۷

ترجمہ کنزالعرفان: ان کے لئے ان اعمال کے بدلے میں ان کے ربّ کے حضور سلامتی کا گھر ہے اور وہ ان کا مددگار ہے۔"

اس آیت مبارکہ میں لفظ "دار السلام" کا معنی "سلامتی کا گھر" اور جنت کو دارلسلام اس لئے فرمایا ہے کہ جنت ہر قسم کی خرابیوں، تکلیفوں اور مشقتوں سے پاک ہے۔

مؤمن اور مسلمان محض اس چیز کاکا نام نہیں کہ کوئی آدمی صرف کلمہ پڑھ لے اور کچھ متعین اعمال و ارکان ادا کر لے، بلکہ اسلامی شریعت اپنے پیروؤں سے ایک ایسی بھرپور زندگی کا تقاضا کرتی ہے، جس کا حامل ایک طرف عقائد و اعمال کے لحاظ سے اللہ عزوجل کا حقیقی بندہ کہلانے کا مستحق ہو تو دوسری طرف وہ انسانیت کے تعلق سے پوری طرح امن کا نمونہ اور محبت و مروت کا مظہر ہو اور اس کے علاوہ دینِ اسلام کے تمام احکامات کو بجالانے میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کے نقشِ قدم پر چلے۔

اللہ عزوجل ہمیں ایمان کی سلامتی کے ساتھ مدینے میں موت عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم