بلاشبہ قرآن کریم میں گزشتہ انبیائے کرام کے واقعات اور معجزات اور اوصاف بیان
کیے گئے اور ان کی مدح و ستائش بیان کی گئی ہے، قرآن کریم میں ان انبیائے کرام کے
اوصاف حمیدہ کو بہت احسن طریقے سے بیان کیا گیا ہے اور ان کے اوصاف کو ایسے روشن
کیا جیسے سارا آسمان جھلملاتے ستاروں سے روشن ہے۔ انہیں میں حضرت عیسیٰ علیہ
السلام بھی ہیں، آپ دنیا و آخرت میں عزت و وجاہت والے اور رب کریم کے مقرب بندے
ہیں، چنانچہ حضرت عیسیٰ کے اوصاف کے بارے میں چند آیات مبارکہ ملاحظہ ہوں:
1۔ کلمۃ اللہ ہونا: حضرت
عیسیٰ کا ایک وصف قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ آپ کو کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے
کہ آپ کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ کُن سے ہوئی باپ اور ماں کے نطفہ سے نہ ہوئی،(تفسیر صراط الجنان، 1/476) جیسا کہ سورہ اٰل عمران کی آیت نمبر 45 میں ارشاد ہے: اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ
بِكَلِمَةٍ مِّنْهُۙ-ترجمہ: اور یاد کرو جب فرشتوں
نے مریم سے کہا کہ اے مریم اللہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی۔
فرمایا کہ وہ اللہ کا کلمہ ہیں کیونکہ آپ کا کوئی باپ ہوتا تو یہاں آپ کی نسبت
ماں کی طرف نہ ہوتی بلکہ باپ کی طرف ہوتی۔ (صراط الجنان، 1/476)
2۔ مسیح ہونا: اللہ پاک قرآن
پاک میں حضرت عیسیٰ کا ایک اور وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ (پ 3، اٰل عمران: 45) ترجمہ: جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ اس آیت
مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ کا نام عیسیٰ اور لقب مسیح ہے کیونکہ آپ
مس کر کے یعنی چھوکر شفا دیتے تھے، حضرت عیسیٰ پیدائشی اندھوں کو آنکھوں کا نور
عطا فرما دیتے، کوڑھ کے مریضوں کو چھو کر شفایاب کر دیتے، مردوں کو اللہ کے نام سے
زندہ کر دیتے، یہ سب کام باذن اللہ کرتے تھے۔ (تفسیر صراط الجنان، 1/476)
3۔ حضرت مریم کا بیٹا ہونا: اللہ پاک پارہ 3 سورۂ اٰل عمران میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ
مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) (پ 3، اٰل عمران: 59) ترجمہ: بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے
نزدیک آدم کی طرح ہے جسے اللہ نے مٹی سے بنایا پھر اسے فرمایا: ہو جا! تو وہ فورا
ہوگیا۔ یہ آیت مبارکہ نجران کے عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے آقا ﷺ سے
کہا کہ آپ گمان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ اللہ کے بندے ہیں، فرمایا: ہاں، اس کے بندے
اور اس کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے کنواری پاک مریم رضی اللہ عنہا کو عطا
فرمایا، عیسائی یہ سن کر بہت غصہ میں آئے اور کہنے لگے: اے محمد! کیا تم نے کبھی
بے باپ کا انسان دیکھا ہے؟ اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں (معاذ
اللہ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یہ بتایا گیا کہ حضرت عیسیٰ تو صرف بغیر باپ کے
پیدا ہوئے جبکہ حضرت آدم علیہ السلام تو ماں اور باپ دونوں کے بغیر مٹی سے پیدا
ہوئے تو جب انہیں اللہ کا مخلوق اور بندہ مانتے ہو تو حضرت عیسیٰ کو اللہ کا مخلوق
و بندہ ماننے میں کیا تعجب ہے، لہٰذا یہ معلوم بھی ہو گیا کہ حضرت آدم بغیر نطفہ
کے بنے ایسے ہی حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے کنواری مریم سے پیدا ہوئے اس لیے تو ان کو
عیسیٰ بن مریم کہا جاتا ہے۔ (صراط الجنان، 1/489)
4۔ دنیا و آخرت میں عزت والا ہونا: اللہ پاک پارہ 3 سورہ اٰل عمران آیت نمبر 45 میں ارشاد فرماتا ہے: وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ
الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) ترجمہ کنز الایمان: رو دار ہوگا دنیا اور آخرت میں اور قرب
والا۔ اس آیت مبارکہ میں دنیا میں عزت والا ہونا کہ قرآن کے ذریعے سارے عالم میں
ان کے نام کی دھوم مچا دی گئی، آخرت میں خصوصی عزت والا ہونا بہت سے طریقوں سے
ہوگا ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قیامت میں انہی کے ذریعہ مخلوق کو حضور اقدس ﷺ تک
رہنمائی ملے گی۔
بارگاہ الٰہی میں بہت زیادہ قرب و منزلت رکھنے والا ہونا وغیرہ، معلوم ہوا کہ
انبیا کی نعت خوانی سنت الٰہیہ ہے، اللہ پاک اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (صراط
الجنان، 1/477-478)