آپ علیہ السلام کا مبارک نام عیسیٰ اور آپ کا نسب حضرت داود سے جا ملتا ہے، آپ کی کنیت ابن مریم ہے اور تین القابات یہ ہیں:مسیح، کلمۃ اللہ اور روح اللہ۔

آپ چونکہ مس کر کے بیماروں کو شفا دیتے تھے اس لیے آپ کو مسیح کہا جاتا ہے۔

آپ کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ کُن سے ہوئی باپ اور ماں کے نطفے سے نہ ہوئی اس لیے آپ کو کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے۔(تفسیر صراط الجنان، 1/476)

اللہ پاک نے آپ کو اپنی طرف سے ایک خاص روح فرمایا اس بنا پر آپ کو روح اللہ بھی کہا جاتا ہے۔ (سیرت الانبیاء، ص 793)

آپ پر آسمانی کتاب انجیل کا نزول ہوا۔

آئیے آپ کے اوصاف کے بارے میں کلام کرتے ہیں، آپ بے شمار اچھے اوصاف و کمالات کے مالک تھے جن میں سے چند یہاں ذکر کرتے ہیں:

1۔ آپ دنیا و آخرت میں خدا کی بارگاہ میں بہت معزز و مقرب بندے ہیں، قرآن کریم میں ہے: وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) (پ 3، اٰل عمران: 45) ترجمہ کنز الایمان: رو دار ہوگا دنیا اور آخرت میں اور قرب والا۔

2۔ آپ نے بہت چھوٹی عمر میں لوگوں سے کلام کیا۔ قرآن کریم میں ہے: وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) (پ 3، اٰل عمران: 46) ترجمہ کنز الایمان: اور لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں اورپکی عمر میں اور خاصوں میں ہوگا۔

3۔ آپ نماز کے پابند اور ادائے زکوٰۃ کی تاکید کرنے والے تھے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّاﳚ(۳۱) (پ 16، مریم: 31) ترجمہ: اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں۔

4۔ آپ اپنی والدہ سے اچھا سلوک کرنے والے تھے نیز تکبر سے دور اور شقاوت سے محفوظ تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲) (پ 12، مریم: 32) ترجمہ: اور مجھے اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا بنایا اور مجھے متکبر و بدنصیب نہ بنایا۔

5۔ آپ اللہ کا بندہ بننے میں کسی طرح کا شرم و عار محسوس نہیں فرماتے تھے، ارشاد باری ہے: لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا(۱۷۲) (پ 6، النساء: 172) ترجمہ: تو مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عار کرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت و تکبر کرے تو عنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔

6۔ اللہ نے آپ کو نبوت عطا فرما کر احسان فرمایا اور آپ کو بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کا حیرت انگیز نمونہ بنایا۔ اللہ پاک نے فرمایا: اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۵۹) (پ 25، الزخرف: 59) ترجمہ: عیسیٰ تو نہیں ہے مگر ایک بندہ جس پر ہم نے احسان فرمایا ہے اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ایک عجیب نمونہ بنایا۔

7۔ اللہ کریم نے حضرت عیسیٰ کو آپ کی رسالت حق ہونے پر روشن نشانیاں عطا کیں۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ (البقرۃ: 87) ترجمہ: اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں۔

8۔ اللہ پاک نے آپ کو مخلص حواری عطا فرمائے جنہوں نے آپ کے ارشادات دل و جان سے تسلیم کیے، ارشاد ربانی ہے:وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْۚ-قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ(۱۱۱) (پ 7، المائدۃ: 111) ترجمہ: اور جب میں نے حواریوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو انہوں نے کہا: ہم ایمان لائے اور (اے عیسیٰ) آپ گواہ ہو جائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔

9۔ آپ کے آسمان سے دوبارہ زمین پر تشریف لانے کو قیامت کی ایک نشانی بتایا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۶۱) (پ 25، الزخرف: 61) ترجمہ: اور بے شک عیسیٰ ضرور قیامت کی ایک خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرنا یہ سیدھا راستہ ہے۔

10۔ اللہ کریم نے آپ کو تورات اور انجیل سکھائی۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَۚ(۴۸) (پ 3، اٰل عمران: 48) ترجمہ: اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا۔

اللہ کریم ہمیں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین