نبی و رسول اللہ پاک کے نیک، عبادت گزار، پرہیزگار اور ہر قسم کے گناہ سے پاک
اور خوش اخلاق اور خوش مزاج بندے ہوتے ہیں، اللہ پاک کا ان پر خاص کرم و فضل ہوتا
ہے اور یہ کسی قسم کے بھی عیب میں مبتلا نہیں ہوتے، اللہ پاک انہیں عقل سلیم عطا
فرماتا ہے انہیں میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جن کے بارے میں اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ
فِیْهِ هُدًى وَّ نُوْرٌۙ-وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ
التَّوْرٰىةِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَؕ(۴۶) (پ 6، المائدۃ: 46) ترجمہ: اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور
تھا اور وہ انجیل اس سے پہلے موجودہ تورات کی تصدیق فرمانے والی تھی اور
پرہیزگاروں کےلیے ہدایت اور نصیحت تھی۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ نے چار
شخصوں کو زندہ کیا: عازر، ایک بڑھیا کا لڑکا، ایک لڑکی اور سام بن نوح۔ (تفسیر
جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 49، 1/419-420 ملتقطا)
2۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو اپنی رسالت و معجزات کے بارے
میں بتایا تو انہوں نے درخواست کی کہ آپ ایک چمگادڑ پیدا کریں، آپ نے مٹی سے چمگادڑ
کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اللہ کے حکم سے اڑنے لگی۔ (خازن، اٰل
عمران، تحت الآیۃ: 49، 1/251)
3-4۔ حضرت عیسیٰ جسمانی مریضوں کو شفا دینے کے ساتھ ساتھ روحانی مریضوں کا بھی
علاج فرماتے تھے، حضرت عیسیٰ کسی بستی میں جاتے تو اس بستی کے برے لوگوں کے بارے
میں پوچھتے حضرت یحیی نے ان سے پوچھا، آپ برے لوگوں کا پوچھ کر ان کے پاس کیوں
جاتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: میں جسمانی طبیب کے ساتھ ساتھ روحانی طبیب بھی ہوں اور
میں گناہ کے ان مریضوں کو توبہ و نیک اعمال کی تلقین کر کے ان کا علاج کرتا
ہوں۔(حسن التنبہ، 5/64)
5-6۔ حضرت عیسیٰ خود بھی دنیا سے بہت زیادہ بے رغبت تھے کبھی بھی دنیوی نعمتوں
کو خاطر میں نہ لاتے یہاں تک کہ آپ نے ایک ہی اونی جبہ میں اپنی زندگی کے دس سال
گزار دیئے جب وہ جبہ کہیں سے پھٹ جاتا تو سے باریک رسی سے باندھ لیتے یا پیوند لگا
لیتے۔ (عیون الحکایات، ص 119)
7۔ ایک بار آپ نے ارشاد فرمایا: میں نے تخلیق کے بارے میں غور و فکر کیا تو اس
نتیجے پر پہنچا کہ جسے پیدا نہیں کیا گیا وہ اس سے زیادہ رشک کے قابل ہے جسے پیدا
کر دیا گیا۔ (المجالسۃ و جواہر العلم، 1/224)
8۔ قیامت کا ذکر سن کر آپ کا جو حال ہوتا اس کے بارے میں امام شعبی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: حضرت عیسیٰ کے سامنے قیامت کا ذکر ہوتا تو شدتِ خوف سے آپ کی چیخ
نکل جاتی اور فرماتے: ابن مریم کے لیے یہی مناسب ہے کہ تذکرہ قیامت کے وقت اس کی
چیخ نکل جائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، 19/28، رقم: 35385)
9-10۔ آپ دنیا و آخرت میں خدا کی بارگاہ میں بہت معزز و مقرب بندے تھے، آپ نے
بڑی عمر کے علاوہ بہت چھوٹی عمر میں بھی لوگوں سے کلام کیا اور آپ اللہ کے خاص
بندوں میں سے ہیں۔ (سیرت الانبیاء، ص 811)