حضرت عیسیٰ علیہ السلام بے شمار اچھے اوصاف و کمالات اور خصائل کے مالک تھے جن میں سے کچھ کا بیان قرآن کریم میں بھی ہے۔

1 تا 4۔ آپ دنیا و آخرت میں خدا کی بارگاہ میں بہت معزز و مقرب بندے ہیں آپ نے بڑی عمر کے علاوہ بہت چھوٹی عمر میں بھی لوگوں سے کلام کیا اور آپ اللہ کے خاص بندوں میں سے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) (پ 3، اٰل عمران: 45-46) ترجمہ کنز الایمان: رو دار ہوگا دنیا اور آخرت میں اور قرب والا اور لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں اورپکی عمر میں اور خاصوں میں ہوگا۔

5 تا 9۔ آپ نماز کے پابند اور امت کو ادائے زکوٰۃ کی تاکید کرنے والے تھے آپ کی ذات بڑی برکت والی تھی آپ اپنی والدہ سے اچھا سلوک کرنے والے تھے نیز تکبر سے دور اور شقاوت سے محفوظ تھے۔ قرآن پاک میں ہے: وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّاﳚ(۳۱) وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲) (پ 16، مریم: 31-32) ترجمہ: اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں اور مجھے اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا بنایا اور مجھے متکبر و بدنصیب نہ بنایا۔

10۔ آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا بندہ بننے میں کسی طرح کا شرم و عار محسوس نہیں فرماتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا(۱۷۲) (پ 6، النساء: 172) ترجمہ: تو مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عار کرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت و تکبر کرے تو عنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا(۳۳) (پ 12، مریم: 33) ترجمہ: اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا۔

اللہ کریم ان ہستیوں کے فیضان سے ہم سب کو فیضیاب فرمائے اور ان کے صدقے ہمارا سینہ مدینہ بنائے۔ آمین