خالق کل جہاں نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو ان میں اپنا سب سے زیادہ قرب
حضرات انبیائے کرام کو عطا فرمایا، تمام انبیائے کرام اللہ کے معصوم بندے ہیں ان
حضرات میں سے بعض کے درجات بعضوں سے بلند ہیں جیسا کہ محبوب ﷺ اللہ کے حبیب اور
تمام انبیا سے افضل ہیں یونہی اولو العزم انبیا دیگر انبیائے کرام سے افضل ہیں،
انہی اولو العزم انبیا میں سے ایک جناب عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں، آپ بے شمار
اوصاف سے موصوف ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں بھی آیا، چنانچہ
1۔ کلمۃ اللہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ماں باپ کے نطفے سے نہیں بلکہ کلمہ کُن
سے ہوئی، چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ
مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ
قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) (پ 3، اٰل عمران: 59) ترجمہ: بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے
نزدیک آدم کی طرح ہے جسے اللہ نے مٹی سے بنایا پھر اسے فرمایا: ہو جا! تو وہ فورا
ہوگیا۔
2۔ دنیا و آخرت میں معزز: قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَجِیْهًا فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ (پ 3، اٰل عمران:
45) ترجمہ کنز الایمان: رو دار ہوگا دنیا اور آخرت میں۔ دنیا میں عزت والا ہونا کہ قرآن کے ذریعے سارے عالم میں ان کے نام کی دھوم
مچادی گئی اور آخرت میں بہت طریقوں سے ہوگا ایک یہ کہ انہی کے ذریعے مخلوق کو شفیع
روزِ جزا تک رہنمائی ملے گی۔(تفسیر صراط الجنان، 1/477)
3۔ رب کریم کے مقرب: جناب عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے مقرب بندے ہیں، قرآن کریم میں ان کے بارے
میں ارشاد ہوا: وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) (پ 3، اٰل عمران: 45) ترجمہ کنز الایمان: اور قرب والا۔
4۔ بغیر باپ کے پیدا ہونے والے: حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے، چنانچہ صراط
الجنان میں ہے: اگر آپ کا کوئی باپ ہوتا تو یہاں آپ کی نسبت ماں کے بجائے باپ کی
طرف ہوتی جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ پاک نے خود فرمایا: اُدْعُوْهُمْ
لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِۚ- (پ 21، الاحزاب: 5) ترجمہ: ان لوگوں کو ان کے باپوں کی
نسبت پکارو یہ اللہ کے نزدیک انصاف سے قریب ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، 1/476)
5۔ مسیح اللہ: حضرت عیسیٰ بیماروں کو چھوکر شفا دے دیتے تھے، اس لیے انہیں مسیح اللہ کہا
جاتا ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے: اسْمُهُ الْمَسِیْحُ
عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ (پ 3، اٰل عمران: 45) ترجمہ:
جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا۔
6۔ مہد و کہل میں کلام کرنے والے: مہد یعنی جھولے میں حضرت عیسیٰ نے بچپن کی عمر میں
کلام فرمایا اور اپنی ماں کی پاکدامنی ثابت کی اور کہل یعنی پکی عمر میں، جیسا کہ
احادیث میں وارد ہے کہ قربِ قیامت آپ تشریف لائیں گے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ
ہے: وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ
الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) (پ 3، اٰل عمران: 46) ترجمہ کنز الایمان: اور لوگوں سے بات
کرے گا پالنے میں اورپکی عمر میں اور خاصوں میں ہوگا۔
7۔ برکت والے: ارشاد ہے: وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا (پ 16، مریم: 31) ترجمہ: اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے۔ اللہ کریم نے نبوت عطا فرما کر انہیں لوگوں کو نفع
پہنچانے والا خیر و توحید و عبادت کی تعلیم دینے والا بنایا۔ (تفسیر صراط الجنان، مریم:
31 ملتقطا)
8۔ اللہ کریم کے بندے: آپ اللہ کا بندہ بننے میں کچھ عار محسوس نہ کرتے۔ (سیرت الانبیاء، ص 812)
چنانچہ ارشاد فرمایا: لَنْ یَّسْتَنْكِفَ
الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ
الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ
فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا(۱۷۲) (پ 6، النساء: 172) ترجمہ: تو مسیح اللہ کا بندہ بننے سے
کچھ عار کرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت و تکبر کرے تو
عنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔
9۔ نماز و زکوٰۃ ادا کرنے والے: آپ نے مہد میں جو کلام فرمایا اسے قرآن کریم میں یوں
ارشاد فرمایا گیا: وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ
الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّاﳚ(۳۱) (پ 16، مریم: 31) ترجمہ: اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی
تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں۔
10۔ والدہ سے اچھا سلوک کرنے والے: فرمایا: وَّ بَرًّۢا
بِوَالِدَتِیْ٘- (پ 16، مریم: 32) ترجمہ: اور مجھے اپنی ماں سے اچھا سلوک
کرنے والا بنایا۔
اس کے علاوہ بھی آپ کے بے شمار اوصاف ہیں، اللہ پاک ان کا صدقہ عطا فرمائے
اور ہمیں حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین