قرآن پاک آسمانی کتابوں میں سب  سے آخری کتاب ہے، یہ23 سال کے عرصے میں ماہ ِرمضان المبارک میں آخری نبی، محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، قرآن پاک پوری امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برہان ہے، قرآن پاک کو آسمانی کتب کے علاوہ بھی تمام کتب پر فضیلت حاصل ہے، قرآن پاک شفا بھی ہے کیونکہ اس میں موت کے علاوہ تمام بیماریوں کا علاج ہے، قرآن پاک وہ واحد کتاب ہے جو تمام کتب سے زیادہ آسان ترین کتاب ہے، ہمارے مدینے والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو تو قرآن پاک حفظ تھا، مگر عوام الناس(یعنی عام لوگ) بھی حفظ کر سکتے ہیں اور جس کے بہت سے فضائل ہیں مگر میں قرآن پاک پڑھانے کے فضائل تحریر کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں ۔

امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ

وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہترین وہ شخص ہے، جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔

( قرآن سیکھے اور سکھائے، جلد3 ، صفحہ نمبر7)

حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےحضور صاحبِ لولاک، سیاحِ افلاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم اللہ کی طرف قرآن سے افضل کسی عمل کے ساتھ نہیں لوٹو گے۔ ( جنت میں لے جانے والے اعمال ، صفحہ نمبر390)

حضرت سیدنا ابو سلمان خطاب رضی اللہ عنہ"معالم السنن" میں فرماتے ہیں کہ روایت میں آیا کہ قرآن کی آیتوں کی تعداد جنت کے درجات کے برابر ہے، لہذاقاری سے کہا جائے گا کہ تو جتنی آیتیں پڑھ سکتا ہے، اتنے درجات طے کرتے جاؤ، جو اُس وقت پورا قرآن پڑھ لے گا، وہ جنت کے اِنتہائی درجے کو پا لے گا اور جس نے قرآن کا کوئی جُز پڑھا تو اس کے ثواب کی حد قراءت کی انتہا تک ہوگی۔ (جنت میں لے جانے والے اعمال، صفحہ نمبر389)

فروغِ دینِ ا سلام کے لئے اللہ تبارک و تعالی نے اپنے کلامِ مجید میں متعدد مقامات پر اَحکامات کا صدور فرمایا ہے، چند آیتیں درج ذیل ہیں:اِرشادِ باری تعالٰی ہے کہ: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ترجمۂ کنزالایمان: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے۔(پ14،النحل:125)

حدیث پاک میں فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ، سُرورِ قلبِ سینہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں دو مجلسوں کے پاس سے گُزرے تو فرمایا:دونوں بھلائی پر ہیں مگر ایک مجلس دوسری سے بہتر ہے ،ایک مجلس کے لوگ اللہ تعالیٰ سے دعا کررہے ہیں ،اس کی طرف راغب ہیں ، اگر چاہے انہیں دے چاہے نہ دے۔ اور دوسری مجلس کے لوگ خود بھی فقہ اور علم سیکھ رہے ہیں اور نہ جاننے والوں کو سکھا بھی رہے ہیں،یہی افضل ہیں ،میں معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ '' پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم انہی میں تشریف فرما ہوئے ۔ ( مشکوۃ المصابیح کتاب العلم، الحدیث : 60 ، ج1، ص117)

ایک حدیث شریف میں ہے: جس شخص نے کتاب اللہ کی آیت یا علم کا ایک باب سکھایا، اللہ تاقیامت اس کا اجر بڑھاتا رہے گا۔

عطا ہو شوق مولا مدرسے میں آنے جانے کا

خدایا! ذوق دے قرآن پڑھنے کا ، پڑھانے کا

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور قرآن کی عظمت:

جب امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حماد نے سورہ فاتحہ ختم کی تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے استاد کو پانچ سو دراہم بھجوائے، (ایک روایت میں ہے کہ ہزار درہم عطا فرمائے) اس رقم کو دیکھ کر استاد صاحب کہنے لگے:میں نے کیا ایسا کام انجام دیا ہے، جس کے بدلے آپ نے کثیر رقم بھیجی ہے؟

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو بلا بھیجا اور معذرت کی، پھر فرمایا:میرے لڑکے کو جو کچھ آپ نے سکھایا ہے اس کو حقیر نہ جانیں، واللہ! اگر میرے پاس اس سے زیادہ ہوتا تو قرآن شریف کی عظمت کے پیشِ نظروہ سب آپ کی نظر کر دیتا