حضرت سیّدنا عثمان بن غفار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:"تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے، جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔"

( صحیح بخاری، سنن ابو داؤد)

اس حدیث شریف میں قرآن پاک سیکھنے اور سکھانے والے بندے کو سب سے اَفضل اور بہتر بندہ قرار دیا ہے، جس طرح اللہ تعالی کو اپنی مخلوق پر فضیلت و عظمت حاصل ہے، اسی طرح اللہ تعالی کے کلام کو بھی مخلوق کے کلام پر عظمت و فضیلت حاصل ہے، تو ظاہر ہے کہ اس کا سیکھنا، سکھانا بھی دوسرے کاموں سے افضل و اَشرف ہوگا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا سب سے اہم پیغمبرانہ وظیفہ وحی کے ذریعے قرآن مجید کو اللہ تعالی سے لینا، اس کی حکمت کو سمجھانا اور اسے دوسروں تک پہنچانا تھا۔ اسی لئے اب قیامت تک جو بندہ قرآن مجید کے سیکھنے سکھانے کو اپنا شغل و وظیفہ بنائے گا، وہ گو یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے مشن کا خادم ہوگااور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص الخاص نسبت حاصل ہوگی، اسی وجہ سے قرآن پاک سیکھنے اور سکھانے والے کو سب سے افضل و اشرف بندہ قرار دیا گیا۔

ایک اور حدیث شریف میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قرآن پاک کے سیکھنے اور سکھانے والے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ایک بار آپ صلى الله عليه وسلم چند اَصحاب ِصفہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: اور کچھ یوں مخاطب ہوئے" تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ وادئی بطحان یا عقیق جائے اور وہاں سے موٹی تازی دو اُونٹنیاں لے آئے اور اس میں کسی گناہ وقطع رحمی کا مرتکب بھی نہ ہو "صحابہ نے عرض کی اے رسول صلى الله عليه وسلم!ہم سب یہ چاہتے ہیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:"تمہارا ہر روز مسجد جاکر 2 آیتیں سیکھ لینا 2 اونٹیوں کے حصول سے بہتر ہے، تین آیتیں سیکھ لینا تین اونٹنیوں سے بہتر ہے، اِسی طرح جتنی آیتیں سیکھو گے اُتنی اونٹنیوں سے بہتر ہے۔ سبحان اللہ