ملتِ
اسلامیہ کو پہلا درس معلمِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے ، آپ نے پڑھایا
بھی، سکھایا بھی اور سمجھایا بھی، پھر درس و تدریس اور تعلم و تعلیم کا ایسا عظیم اور
مبارک سلسلہ شروع ہوا کہ چو دہ صدیاں گزر گئیں مگر یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے، قرآن مجید ہمارے علم و حکمت اور عقل و دانائی کی
بنیاد اور مرکز ہے، علم و حکمت کی ساری بہاریں اور ساری رعنایاں اس کے دم سے ہیں، مگر افسوس! کہ قرآن مجید پڑھانے والا، علمِ دین سکھانے والا، ہماری نظر میں کچھ وقعت اور قدرو منزلت نہیں رکھتا، حالانکہ معلمِ کامل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ:"
تم میں سے بہترین شخص وہ ہے، جو قرآن خود
بھی سیکھے اور دوسروں کو بھی سکھائے۔"( صحیح بخاری، جلد 2، ص752)
کلامِ
پاک چونکہ اصل دین ہے، اس کی بقا اور اشاعت پر ہی دین کا مدار ہے، اس لئے اس کے پڑھنے پڑھانے کا افضل ہونا ظاہر ہے،
البتہ اس کی انواع مختلف ہیں، کمال اس کا
یہ ہے کہ مطالب و مقاصد سمیت سیکھے اور ادنٰی
درجہ اس کا یہ ہے کہ فقط الفاظ سیکھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ارشاد حدیث مذکور کی تائید کرتا ہے جو سعید بن سلیم رضی اللہ عنہ سے مرسلاً مذکور ہے، " جو
شخص قرآن شریف کو حاصل کرے اور پھر کسی دوسرے شخص کو جو کوئی اور چیز عطا کیا گیا
ہو، اپنے سے افضل سمجھے تو اس نے حق تعالیٰ
کے اس انعام کی جو اپنے کلام پاک کی وجہ
سے اس پر فرمایا ہے، تحقیر کی ہے اور یہ بات کھلی ہوئی ہےکہ جب کلامِ الہی سب کلاموں سے افضل ہے تو اس کا پڑھنا پڑھانا یقیناً
سب چیزوں سے افضل ہونا چاہئے۔
ایک
دوسری حدیث میں ملا علی قاری نے نقل کیا
ہے:"کہ جس شخص نے کلامِ پاک کو حاصل
کیا، اس نے علومِ نبوت کو اپنی پیشانی میں جمع کر لیا۔"
سہل
تستری فرماتے ہیں کہ" حق تعالی شانہٗ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اس کے کلامِ
پاک کی محبت دل میں ہو ۔"
شرح
احیاء میں ان لوگوں کی فہرست میں جو قیامت کے ہولناک دن میں عرشِ بریں
کے سایہ کے نیچے رہیں گے، اُن لوگوں کو بھی شمار کیا ہے، جو مسلمانوں کے بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتے
ہیں، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جس
شخص نے کسی بندہ کو کتاب اللہ کی ایک آیت کی تعلیم دی ہے، وہ اس کا مولی ہے، وہ اس کو نامراد نہ کرے اور نہ ہی اس
پر اپنے آپ کو ترجیح دے۔( مجمع الزوائد طبرانی)
قرآن
پاک پڑھانے کی فضیلت اس روایت سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ چنانچہ سیّدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ میرے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا:" جب معلم بچے سے کہتا ہے کہ پڑھو" بسم اللہ الرحمن الرحیم" بچہ پڑھنے والا جب پڑھتا
ہے، تو اللہ تبارک و تعالی بچے اور معلم اور
بچے کے والدین کے لئے آزادی لکھ دیتا ہے۔"
سبحان اللہ!
کتنی پیاری فضیلت بیان کی گئی ہے، غور کریں !جو ماں باپ اپنے بچوں کو قرآن
نہیں پڑھاتے، ہائی کو الیفیکشن کے لئے یہودو نصارٰی کے سپرد کردیتے
ہیں۔
ایک
اور حدیث پڑھئے اور ایمان تازہ کیجئے، پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"
جو شخص بھی دنیا میں اپنے بچے کو قرآن سکھائے، اُسے قیامت کے دن تاج پہنایا جائے
گا اہلِ جنت اسے جنت میں اسی حوالے سے جانیں گے کہ وہ شخص ہے کہ اس نے دنیا میں اپنے بچے کو قرآن سکھایا تھا۔" سبحان اللہ( مجمع الزوائد)
پیارے
قارئین! قرآن پاک پڑھا نا بہت ہی بڑی فضیلت اور خوش قسمتی ہے، یہ اللہ
عزّوجلّ کا پاک کلام ہے، ایک روایت ہے کہ امام اعظم ابو
حنیفہ رحمۃ
اللہ علیہ کے صاحبزادے حماد نے جب
اپنے استاد سے سورۃ فاتحہ پڑھ لی تو اِمام اعظم رحمۃ
اللہ علیہ نے ان کے معلم کو ایک ہزار درہم عطا کئے، معلم نے امام
اعظم سے کہا:میں نے ایسا کون سا بڑا کام
کیا ہے، کہ اتنی بڑی رقم عطا فرمائی ؟
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: کہ آپنے میرے بچے کو جو پڑھایا ہے، وہ
بہت بڑی دولت ہے، خدا کی قسم!
اگر میرے پاس اس سے بھی زیادہ رقم ہوتی، تو وہ بھی بلا تامل آپ کی نظر کر دیتا۔"
قرآن
پڑھانے والے، علمِ دین سکھانے والے کے متعلق
حضرت علی رضی اللہ عنہ
کا قول بہت مشہور ہے، کہ فرماتے ہیں" جنہوں نے مجھے علم کا ایک
حرف بھی سکھایا، میں اس کا غلام ہوں، اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے، اگر چاہے تو مجھے آزاد کر دے اور اگر چاہے تو مجھے غلام بنا ئے رکھے۔"
قرآن
پڑھانے والے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں،
دنیا و آخرت میں بھی اور معاشرہ میں بھی، ہمیں
چاہئے کہ ہم ان معلم کی قدر کریں اور ان کا احترام کریں اور اللہ پاک ہمیں توفیق دے کہ ہم قران
پڑھنے اور پڑھانے والے بن جائیں۔امین بجاہ
النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم