اللہ تبارک تعالی نے حضرتِ انسان کو
بڑا عظیم الشّان پیدا کیا ہے اور اشرف المخلوقات بھی بنایا اور یہ بھی ایک مسلمّہ حقیقت ہے کہ علم کا ادراک ہی وہ خاصیت ہے، جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔
بیشک یہ علم ہی تھا جس کی فضیلت کی بنا پر آدم علیہ السلام کے لئے فرشتوں کو سجدے کا حکم ہوا،
کہیں یہ فرمایاگیا" کہ کیا علم والے
اور بغیر علم والے برابر ہو سکتے ہیں؟
ہرگز
نہیں، انسان علم ہی کی بدولت اچھے، بُرے، کھرے، کھوٹے کی تمیز کرتا ہے اور اس پر مُستَزاد یہ کہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنے حبیبِ لبیب، طبیبوں
کے طبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں پیدا فرمایا،
خوش نصیب ہیں وہ لوگ کہ جنہیں نیک عمل کی توفیق کے ساتھ قرآنی علم بھی ودیعت کیا گیا اور یہ توفیق بھی بخشی گئی کہ وہ اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگوں کو نیک اعمال کی طرف متوجّہ کرتے ہیں،
جیسا کہ نمازوں کی طرف بلانا، قرآن پاک کی تعلیم دینا وغیرہ وغیرھا اور اس کے
بے شمار فضائل بھی ہیں، قرآن مجید فرقان
حمید اللہ ربُّ الانام
عزوجل کا مبارک کلام ہے، اس کا پڑھنا، پڑھانا، سننا، سنانا ثواب کا کام ہے۔
تلاوت کی توفیق دے دے الٰہی
گناہوں کی ہو دُور دِل سے سیاہی
نبی
اکرم، نورِ مجسم، رسول ِاکرم، شہنشاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:
"تم
میں بہترین شخص وہ ہے، جس سے قرآن سیکھا
اور دوسروں کو سکھایا۔"
(صحیح البخاری، ج 3، ص410، حدیث5027)
حضرت
سیّدنا ابو عبدالرحمن سُلَمی رضی اللہُ
عنہ مسجد میں قرآنِ پاک پڑھایا کرتے تھے اور فرماتے:" اِسی
حدیثِ مبارک نے مُجھے یہاں بٹھا رکھا ہے۔"
( فیض القدیر، ج3، ص618، تحت الحدیث3983)
عطا ہو شوق مولی مدرسے میں آنے جانے کا
خدایا! ذوق
دے قرآن پڑھنے کا پڑھانے کا
حضرت
سیدنا انس رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم، رحمتِ عالم، نورِ مجسم، شاہِ بنی آدم، رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:"جس
شخص نے قرآن پاک سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآن پاک میں ہے، اُس پر عمل کیا، قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے
جائے گا۔" ( تاریخ دمشق لابن عساکر، ج 41، ص3)
مندرجہ
بالا روایت سے یہ بات اظہر من الشمس
ہے کہ قرآن کا سیکھنا اور سکھانا بہت بڑی سعادت مندی ہے اور دورِ حاضر میں ہم دعوتِ اسلامی کی صورت میں ایسی تحریک دیکھتے
ہیں کہ جو امیرِاہلسنت کے فیضان سے ایسا عظیمُ الشان کام سرانجام دے رہی ہے کہ اس
گناہوں بھرے دور میں بھی لاکھوں لاکھ لوگ
اِس تحریک سے وابستہ ہوکر قرآنی تعلیمات حاصل کر رہے ہیں اور ہم پڑھ رہے ہیں، قرآن پڑھا رہے ہیں، چاہے وہ بالغان کے مدرسے ہوں یا مدرسۃ المدینہ للبنین و للبنات کی صورت میں
ہوں، یہ کتنی بڑی تبدیلی ہے کہ آج کے اس پُرفتن
دور میں بھی بے شمار لوگ قرآنی تعلیمات سے
وہ مستفیض ہو رہے ہیں، اپنے مخارج کی دُرستگی
کر رہے ہیں اور نمازوں کی اصلاح کر رہے ہیں اور وہ نوجوان نسل جو اپنی زندگی
گناہوں میں بسر کر رہی تھی، آج اُس کی ایسی کایا پلٹ ہوئی کہ وہ فیشن ایبل نوجوان
دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو کر مسجد کے اِمام کے مصلٰی پر کھڑا ہو
چکا ہے۔
اللہ کرم ایسا
کرے تجھ پہ جہاں میں
اے دعوت اسلامی تیری دھوم مچی ہو
اے
میری اُمت کے نوجوان! کیا آج آپ کا دل نہیں
کرتا کہ آپ بھی اس پیاری تنظیم سے وابستہ ہوجائیں اور صلوۃ و سنت کی راہ پر آ جائیں، کیا اب بھی وہ وقت نہیں
آیا کہ ہمارے دل خوفِ خدا اور عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے دھڑکیں۔۔۔۔؟