حنین رضا (درجۂ سادسہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ کراچی، پاکستان)
ہمارا جو اس ماہ کا مضمون ہے وہ پڑوسی (ہمسایہ ) کے حقوق کے
حوالے سے ہے ۔پڑوسیوں سے حسنِ سلوک کرنا یہ بہت ہی عمدہ کام ہے اور ہمیں اس بات کے
حوالے سے ہمارے دین نے بھی بہت تربیت کی ہے، چنانچہ پڑوسی کی دو قسمیں ہیں:
(1) قریب کے پڑوسی (ہمسائے) سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے
گھر سے ملا ہوا ہو ۔ یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے۔
یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا پڑوسی ہے۔
(2) اور دور کے پڑوسی (ہمسائے) سے مراد وہ ہے جو محلہ دار
تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو ۔ یا وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار
نہ ہو وہ دور کا پڑوسی ہے۔ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ
اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا پڑوسی ہے۔(صراط الجنان، پ 5، سورۃ
النساء :4. آیت 36)اسی ضمن میں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :
(1)اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جبرئیل علیہ السّلام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ
مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔(بخاری، کتاب الادب، باب الوصاۃ
بالجار،4/104، حدیث:6014)
دیکھا جائے تو اس حدیث مبارکہ میں کتنا پیارا ذہن دیا گیا
ہے پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی کرنے اور ان کے ساتھ مل جل کر رہنے کا درس دیا جا رہا
ہے ۔
(2)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک کے نزدیک بہترین
ساتھی وہ ہیں جو اپنے ہمراہیوں کے لیے بہتر ہوں اور اللہ پاک کے نزدیک بہترین
پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھے ہوں۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء
فی حق الجوار،3/379، حدیث:1951)
حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا :اللہ پاک کے نزدیک بہترین
پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھے ہوں۔ اور ہمارا کیا کردار ہے؟ یہاں سوچنے
کا مقام ہے آیا کہ ہمارے پڑوس والے افراد ہمارے ساتھ خوش ہیں یا نہیں ؟ خوش ہیں تو
فَبِھَا اور اگر خوش نہیں ہیں تو کیوں خوش نہیں ہیں؟
(3)ترمذی و دارمی و حاکم نے عبداﷲ بن عمرو رضی اللہُ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں وہ بہتر
ہے، جو اپنے ساتھی کا خیر خواہ ہو اور پڑوسیوں میں اﷲ کے نزدیک وہ بہتر ہے جو اپنے
پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔ (سنن الترمذی، کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی حق الجوار
،3/379،حدیث:379)
حدیث مبارکہ میں خیرخواہ کا لفظ استعمال کیا گیا لغت میں
خیرخواہ بھلا چاہنے والے / ہمدرد کو بھی کہتے ہیں ۔ کیا ہم اپنے پڑوسیوں کے
خیرخواہ ہیں یا نہیں یہ مقام غوروفکر کا ہے۔
(4)بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی
عنہما سے روایت کی، کہتے ہیں : میں نے رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
یہ فرماتے سنا:مؤمن وہ نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو
میں بھوکا رہے۔ (شعب الایمان، باب فی الزکاۃ ، فصل فی کراھیۃ امساک الفضل ۔۔ الخ
،3/225، حدیث:3389) حدیث مبارکہ میں ذکر کیا گیاوہ مؤمن نہیں اس سے مراد وہ کامل
مؤمن نہیں ۔
(5)طبرانی نے جابر رضی
اللہُ عنہ سے روایت کی کہ حضور اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جب کوئی شخص ہانڈی پکائے تو شوربا زیادہ
کرے اور پڑوسی کو بھی اس میں سے کچھ دے۔(المعجم الاوسط، باب الراء،2/379،
حدیث:3591) اس حدیث مبارکہ سے اپنے پڑوسیوں کو اپنے کھانے میں سے کچھ دینے کا درس
دیا گیا ہے ۔
(6)امام احمد و بیہقی نے شعب الایمان میں ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نے عرض کی، یارسول اللہ !صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فلانی عورت کے متعلق ذکر کیا جاتا ہے
کہ نمازو روزہ و صدقہ کثرت سے کرتی ہے مگر یہ بات بھی ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو
زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے، فرمایا: وہ جہنم میں ہے۔ انہوں نے کہا: یارسول اللہ
فلانی عورت کی نسبت زیادہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اس کے روزہ و صدقہ و نماز میں کمی ہے
(یعنی نوافل) وہ پنیر کے ٹکڑے صدقہ کرتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو ایذا نہیں
دیتی، فرمایا:وہ جنت میں ہے۔ (مسند احمد ، مسند ابی ہریرہ ،حدیث:9681، 3،ص441۔ شعب
الایمان، باب فی اکرام الجار ،7/78، 79، حدیث:9545)
اس حدیث مبارک میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگرچہ اعمال میں
کمی ہو(مراد نوافل) مگر اپنے پڑوسی کو خوش کریں اس بات کا درس دیا گیا ہے۔
(7)حاکم نے مستدرک میں عائشہ رضی اللہُ عنہا سے روایت کی کہتی ہیں میں نے عرض کی، یارسول اﷲ میرے
دو پڑوسی ہیں ، ان میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ فرمایا:جس کا دروازہ زیادہ نزدیک
ہو۔(المستدرک للحاکم، کتاب البر والصلۃ ، باب لایشبع الرجل دون جارہ ،5/232،
حدیث:7389)
یہ تھیں چند احادیث مبارکہ جو کہ پڑوسی کے کے حقوق پر دال
ہیں ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ بھی پڑوسیوں کے حقوق میں سے ہی ہیں۔
اللہ پاکٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاکٰ ہمیں اپنے پڑوسیوں کے
حقوق ادا کرنےاور ذکر کی گئی احادیث مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم