حیدر علی عطّاری (درجۂ ثالثہ
جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفی کراچی ، پاکستان)
اللہ پاک کا ہم
پر بہت بڑا فضل ہے کہ اس نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا، اُن نعمتوں میں سے ایک
بہت ہی بڑی نعمت پڑوسی ہیں۔ پڑوسیوں کے حقوق کی بہت زیادہ اہمیت ہے جس کا اندازہ
اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے پاکیزہ کلام میں پڑوسیوں کے ساتھ
حُسنِ سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور احادیث میں بھی پڑوسیوں کے حقوق ادا
کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اور ان کو ایذا دینے سے ڈرایا گیا ہے ۔
قراٰنِ پاک میں
پڑوسیوں کے حقوق:
پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی کرنا: اللہ رب العزت
اپنے پاکیزہ کلام میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی
الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ
السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے
بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے
ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
احادیث میں
پڑوسیوں کے حقوق:
پڑوسیوں
کو تکلیف دینا:حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:خدا کی قسم! وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم! وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم! وہ
مؤمن نہیں۔ عرض کی گئی، کون یارسول اللہ ! فرمایا:وہ شخص کہ اس کے پڑوسی اس کی
آفتوں سے محفوظ نہ ہوں( یعنی جو اپنے پڑوسیوں کو تکلیفیں دیتا ہے)
پڑوسیوں
کے متعلق وصیت کرنا:حضرت اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے
، کہ رسول ﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام مجھے
پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث
بنا دیں گے۔
پڑوسی
کا اکرام کرنا:حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:جو شخص اللہ پاک اور پچھلے دن (قیامت) پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کا
اِکرام کرے۔
پڑوسی
کی اقسام:رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:پڑوسی تین طرح کے ہیں: (۱) وہ مسلمان رشتہ
دار پڑوسی ہیں جن کے تین حق ہیں ۔ حقِ رشتہ دار ، حقِ مسلمان اور حقِ پڑوس (۲) وہ مسلمان پڑوسی
ہیں جن کے دو حق ہیں ۔ حقِ مسلمان اور حقِ پڑوس (۳) وہ پڑوسی ہیں جن کا ایک حق ہے ۔ حقِ
پڑوس۔
حضرت امام زہری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں
کہ چالیس دائیں گھر والے پڑوسی ، چالیس بائیں ، چالیس آگے والے اور چالیس پیچھے
والے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چاروں جانب اس طرح اشارہ کرکے
فرمایا ۔
اس سے معلوم ہوا
کہ پڑوسیوں کی تعداد ایک سو ساٹھ ہے ۔ چالیس بائیں ، چالیس دائیں ، چالیس آگے ،
چالیس پیچھے ۔پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بزرگان دین کا طرز عمل:
پڑوسی
کا احساس : ایک بزرگ نے
اپنے دوستوں سے چوہوں کے متعلق شکایت کی تو اُن سے کہا گیا : آپ بلی کیوں نہیں پال
لیتے ؟ تو فرمایا : مجھے اس بات کا خوف ہے کہ بلی کی آواز سے چوہے پڑوسی کے گھر
میں نہ چلے جائیں اور میں اس بات کو پسند کرنے والا ہو جاؤں گا جسے میں اپنی ذات
کے لئے پسند نہیں کرتا ۔ (احیاء العلوم، ج 2)
حقِ
پڑوس سے مراد:حقِ پڑوس سے
مراد یہ نہیں کہ اُنہیں تکلیف دینے سے اجتناب کیا جائے بلکہ ان کی طرف سے آنے والی
تکالیف پر صبر بھی کیا جائے ۔
اس کے علاوہ بھی
قراٰن و حدیث میں بھی پڑوسیوں کے حقوق بیان ہوئے ہیں اور پڑوسیوں کے حقوق کے متعلق
بزرگان دین کے کئی واقعات ہیں جس میں اُنہوں نے اپنے طرز عمل سے پڑوسیوں کے حقوق
کی اہمیت بیان کی ہے ۔
دعا ہے رب العزت
سے ہمیں پڑوسیوں کا خیال رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
امین