مرزا عزیر بیگ (درجہ خامسہ
جامعۃُ المدینہ فیضان حسن جمال مصطفیٰ کراچی ، پاکستان)
اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ ترجمہ کنز الایمان : آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل
کر دیا۔( پ6،المآئدۃ: 50) چونکہ جب دین اسلام کامل دین ہے تو جہاں اس نے لوگوں کو
کفروشرک کے اندھیروں سے نکال کر نور ہدایت کی طرف لایا تو وہیں اس نے لوگوں میں
انسانیت کو بھی کامل کر دیا کے کہ اس نے لوگوں کے حقوق کو تحفظ بخشا اسلام نے جہاں
ہمیں گھر والوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا وہیں اس نے ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا
کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔
(1)جیسا کہ نبی پاک
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جبرائیل علیہ سلام مجھے پڑوسیوں کے
متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کے مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنادیں ۔ (
بخاری، کتاب الادب، باب الوصیۃ بالجار، 4/104،حدیث: 6014)
(2)اسی طرح حضرت عبد
الله بن عمرو رضی اللہ سے روایت ہے نبی کریم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: الله
تعالی کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہیں جو اپنے ہمراہیوں کے لئے بہتر ہو اور اللہ
تعالیٰ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسی کے لئے اچھے ہوں۔ (ترمذی، کتاب
البروالصلۃ، باب ما جاء فى حق الجوار، 3/379،حدیث:1951)
(3) اسی ایک طرح ایک
اور روایت میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ الله
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فرماتے ہوئے سنا کہ مؤمن وہ نہیں جو خود سیر
ہوجائےاور اسکے برابر میں اسکا پڑوسی بھوکا ہو۔ (مراٰة المناجیح شرح مشكوة المصابيح،
جلد : 6 حدیث نمبر : 4991)
(4)اس طرح حضرت ابن
مسعود رضی اللہ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا کہ بے شک اللہ پاک نے تمہارے درمیان تمہارے اخلاق تقسیم فرمادیئے
جیسے کہ تمہارے درمیان تمہاری روزی بانٹ دی اور اللہ پاک دنیا تو اسے بھی دیتا ہے
جس سے محبت کرتا ہے اور اسے بھی جسے ناپسند فرماتا ہے مگر دین اس کو دیتا ہے جس سے
محبت کرتا ہے تو جسے اللہ دین عطا فرمادے تو اس سے محبت کرتا ہے۔ اسکی قسم جس کے
قبضے میں میری جان ہے کے بندہ مسلمان نہیں ہوتا حتی کہ اسکا دل و زبان سلامت رہے
اور مؤمن نہیں ہوتا حتی کہ اسکاپڑوسی اس کے شر سے امن میں ہو۔ (مراۃ المناجیح جلد
: 6 حدیث نمبر: 4994)
ان روایتوں سے پڑوسیوں کے حقوق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے
لیکن آج اس زمانے میں دیکھا جائے تو پڑوسیوں کے کے حقوق کو نظر انداز کیا جاتا ہے
کہ اگر کوئی پڑوسی بیمار ہو جائے تو نہ ہم اسکی عیادت کو جاتے ہیں اور نہ اسکے
احوال کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ اسی طرح اگر ہمارا پڑوسی فقیر ہو تو ہم اسکی مدد کرنے
کے بجائے اسے اپنی حسین زندگی دکھا کر اسکا دل دکھاتے ہیں ۔ اللہ پاک سے دعا ہے وہ
ہمیں پڑوسی کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین