اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت محمد ذوالفقار، جامعۃ
المدینہ معراج کے سیالکوٹ
بعض
اوقات بچوں کی تربیت پر توجہ نہ دینے کے باعث بچے بگڑ جاتے ہیں، اور عموماً
دیکھاگیا ہے کہ بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے
خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں مگر یاد رکھئے اولاد کی تربیت صرف ماں یا محض باپ کی
نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ
قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم:6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور
اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
حضرت
علی نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ: ان (اپنی اولاد)کو تعلیم دو اور ان کو
ادب سکھاؤ۔
بچے
گیلی مٹی کی طرح ہوتے ہیں انہیں جس سانچے میں چاہیں ڈھالا جا سکتا ہے اس لیے
والدین کو چاہیے کہ وہ پچپن سے ہی اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں کیونکہ اس کی
زندگی ابتدائی سال بقیہ کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں بچہ جو بچپن میں سیکھتا
ہے وہ ساری زندگی اس کے ذہن میں راسخ رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر بچپن میں ہی اسے
سلام میں پہل کرنے، سچ بولنے کی عادت ڈالی جائے تو وہ عمر بھر اسکے ساتھ رہتی ہیں۔
اپنی
اولاد کو وہ کچھ سکھائیے کہ جس سے قیامت کے دن آپ کو رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی باپ نے اپنے بچے کو ایسا عطیہ نہیں
دیا جو اچھے ادب سے بہتر ہو۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959) حکیم الامت مفتی احمد یار
خان رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: اچھے ادب سے مراد بچے کو دیندار، متقی، پر ہیز گار
بنانا ہے۔ اولاد کے لئے اس سے اچھا عطیہ کیا ہو سکتا ہے کہ یہ چیز دین و دنیا میں
کام آتی ہے۔ ماں باپ کو چاہئے کہ اولاد کو صرف مالدار بنا کر دنیا سے نہ جائیں
بلکہ انہیں دیندار بنا کر جائیں جو خود انہیں بھی قبر میں کام آئے کہ زندہ اولاد
کی نیکیوں کا ثواب مردہ کو قبر میں ملتا ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6/420) لہذا اپنے
بچوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیا جائے۔ نماز،روزے
کی پابندی کروائی جائے۔
چنانچہ
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص سے فرمایا: اپنے بچے کی اچھی تربیت
کرو کیونکہ تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ تم نے اس کی کیسی
تربیت کی اور تم نے اسے کیا سکھایا۔ (شعب الایمان، 6 / 400، حدیث:8662)
بچوں
کو ضروری عقائد سکھائیے: والدین کو چاہیے کہ جب ان کی اولاد سن شعور کو پہنچ جائے
تو اسے اللہ تعالیٰ، فرشتوں، آسمانی کتابوں، انبیاء کرام علیهم السلام، قیامت اور
جنت و دوزخ کے بارے میں بتدریج عقائد سکھائیں۔
حوصلہ
افزائی کیجئے: حضرت امام محمد غزالی رحمۃ الله علیہ کیمیائے سعادت میں فرماتے ہیں:
جب بچہ اچھا کام کرے اور خوش اخلاق بنے تو اس کی تعریف کریں اور اس کو ایسی چیز
دیں جس سے اس کا دل خوش ہو جائے۔ اور اگر ماں بچے کو برا کام کرتے دیکھ لے تو اسے
چاہیے کہ تنہائی میں سمجھائے اور بتائے کہ یہ کام برا ہے، اچھے اور نیک بچے ایسا
نہیں کرتے۔ (کیمیائے سعادت، رکن سوم، ص 532)
بچوں
سے محبت کیجئے: بچوں کی دیر پا تعلیم و تربیت کے لئے ان سے ابتداء ہی سے شفقت و
محبت کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ یوں جب ماں کی مامتا اور شفقت پدری کی شیرینی گھول کر
تعلیمات اسلام کا مشروب ان کے حلق میں انڈیلا جائے گا تو وہ فوراً اسے ہضم کر لیں
گے۔
حضرت
عائشہ صدیقہ رضی الله عنہ روایت کرتی ہیں کہ خاتم المرسلينﷺ نے ارشاد فرمایا: بے
شک جنت میں ایک گھر ہے جسے الفرح کہا جاتا ہے اس میں وہی لوگ داخل ہوں گے جو بچوں
کو خوش کرتے ہیں۔ (جامع صغير، ص 140، حدیث: 2321)
اللّہ
کی رضا والے کاموں کا حکم دیجیئے: صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کی: یارسول
الله ﷺ! ہم اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ سرکار مدینہﷺ نے ارشاد
فرمایا: تم اپنے اہل و عیال کو ان چیزوں کا حکم دو جو اللہ کو محبوب ہیں اور ان
کاموں سے رو کو جو رب تعالیٰ کو نا پسند ہیں۔ (در منثور، 8/225)