اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت عنایت اللہ، جامعۃ
المدینہ معراج کے سیالکوٹ
بہت
سی باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے بچے بگڑ جاتے ہیں اور ان کی زندگی پر اور ان کے
اخلاق پر اور ان کی فطرت پر بہت برا اور گہرا اثر ہوتا ہے جیسے کہ اگر بچہ کوئی
غلطی کرے تو ماں کو بچے کے والد یا کسی بڑے کے سامنے دوسرے بچوں کے سامنے اسے اس
کی غلطی نہیں بتانی چاہیے بلکہ اکیلے میں اسے سمجھانا چاہیے تاکہ اس پر برا اثر نہ
پڑے اور وہ بات کو سمجھ سکے اور بچوں کے سامنےتو تڑاک سے بات نہ کی جائے ایک دن
بچے بڑے ہو کر وہ بھی اپ سے تو تڑاك سے ہی بات کرے گا۔
بچے
کو کند ذہنی ہے پڑھائی میں کمزور وغیرہ کہنا اسے مزید کند ذهن بنا سکتے ہیں اسی
لیے ایسا کہنے سے اجتناب کیجیے بلکہ اس کی چھوٹی سی چھوٹی کاوش پر بھی اسے بہت
زیادہ سراہیے اسے کوئی اس کی پسندیدہ چیز دیجیے تاکہ اس کا اس کام میں دل لگے اس
سے بچے کے سدھرنے کے بہت سے امکانات ہیں
کارٹون
دیکھنا گندے بچوں کا کام ہے اچھے بچے مکہ شریف اور مدینہ شریف دیکھتے ہیں بچوں کی
جتنی فرمائشیں پوری کریں گے اتنی بڑھتی جائیں گی لہذا شروع ہی سے کنٹرول کرنا
چاہیے اس سے بچے کم بگڑیں گے بچوں کی شرارت پر والدہ کو چاہیے کہ ڈانٹنے کے بجائے
فورا سنجیدہ ہو جائے اور اپنا موڈ آف کر لیں اس سے بچوں پر ایک تاثر رہ گیا جس کی
وجہ سے وہ بات کو سمجھ سکیں گے کہ ہمارا برا کام کرنے سے ہمارے والدین کو اذیت
ہوتی ہے یا ہمارے والدین ناراض ہوتے ہیں اسی لیے وہ برا کام کرنے سے اجتناب کریں
گے جب وہ برا کام نہیں کریں گے تو وہ بگڑیں گے بھی نہیں۔
صحابہ
کرام اپنے بچوں کو بہادروں کی تربیت دیا کرتے تھے بھوت پری کی کہانیاں بچوں کو
بزدل یعنی ڈرپوک بنا دیتی ہیں اپنے بچوں کو سدھارنے کے لیے اور ان کی بہتر تربیت
کرنے کے لیے اور ان کو معاشرے میں عزت دار بنانے کے لیے اور ان کو معاشرے میں اچھی
طرح اچھا شہری بنانے کے لیے چھوٹی عمر ہی سے اپنے بچوں کو دینی ماحول کے بارے میں
سمجھا دیں ورنہ اگر یہ بڑے ہو گئے تو پھر آپ سمجھا نہیں سکیں گے۔
شروع
سے ہی بچوں کو زیادہ کھانے پینے اور اچھے اچھے لباس سے بے رغبت کیا جائے بچوں کو
بچپن سے جیب خرچی دینا شروع نہ کریں گھر میں کھانے کی چیزیں بنا کر دیا کریں بچوں
سے جھوٹ بولنے والے برے لوگ ہیں ان میں ستارے حماقت تقسیم کرنا چاہیے کہ وہ اپنے
ہاتھوں سے بچوں کے اخلاق تباہ کرتی ہیں۔
بچوں
کے سامنے ہرگز جھوٹ نہ بولا جائے اور نہ ہی بری باتیں کی جائیں کہ بچوں کی نیچر پر
برا اثر پڑے اور وہ ان باتوں کو اختیار کر کے اپنی زندگی بگاڑ لے اس بات کو دلیل
بناتے ہوئے کہ ہمارے بڑے بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے امیر المومنین حضرت علی المرتضی
شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم مذکور ایت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ان کو تعلیم دو
اور ادب سکھاؤ۔
دنیا
میں ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے یعنی اللہ پاک نے انسانوں کو توحید اور دین
اسلام قبول کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور فطری طور پر انسان اس دین سے
منہ موڑ سکتا ہے نہ اس کا انکار کر سکتا ہے کیونکہ یہ دن ہرے اعتبار سے عقل سلیم
سے ہم آہنگ اور صحیح سمجھ کے عین مطابق ہے اور جو گمراہ ہوگا وہ جنوں اور انسانوں
کے شیاطین کے بہکانے سے گمراہ ہوگا رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ فطرت اسلام پر
پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اسے یہودی نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
عاشقان
رسول بچہ چونکہ خیر و شر دونوں کو قبول کرتا ہے اور اب یہ اس کے والدین پر ہے کہ
وہ بچے کو خیر و شر میں سے کس جانب مائل کرتے ہیں لہذا مسلمان ہونے کے ناطے ماں
باپ کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو خیر و بھلائی کی طرف رغبت دلائیں اچھے
اخلاقی تعلیم دے اور ہر قسم کی اچھی اور برى باتوں کا لحاظ رکھیں۔
چونکہ
والدین اور اس کا گھرانہ بچے کی پہلی درسگاہ ہوتا ہے اور اس بات کو مد نظر رکھتے
ہوئے جب بچہ نیا نیا بولنا شروع کرتا ہے اس کو والدین مختلف طریقوں سے نہیں نہیں
الفاظات اور نئی نئی باتیں سکھانے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح جب بچہ کچھ بولنا شروع
کرتا ہے تو اس سے اچھے الفاظ سکھائیے اور بڑے ہونے کے بعد بھی بچے کی وحی عادت
رہتی ہے جو اس نے ماں باپ سے سیکھا یہ انہیں کرتے دیکھا لہذا ماں باپ اور سرپرست
صاحبان کو چاہیے کہ بچے کو ادھر ادھر باتیں کرنے یا کچھ الٹا اور فضول کام سکھانے
کے بجائے اللہ کہنا چاہیے تاکہ اس کے صاف ستھری اور پاکیزہ زبان پر اس کے خالق و
مالک کا نام جاری و ساری رہے ان شاء اللہ اس کی برکتیں بچوں اور سکھانے والے دونوں
کو نصیب ہوں گے۔