نیک اولاد اللہ تبارک وتعالی کی عظیم نعمت ہوتی ہے۔ اولاد صالح کے لیے اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی دعا مانگی۔قرآن مجید میں ارشاد ہے: رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) (پ 3، اٰل عمران: 38) ترجمہ کنز الایمان: اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بیشک تو ہی ہے دعا سننے والا۔

یہی وہ نیک اولاد ہے جو دنیا میں اپنے والدین کے لئے راحت اور آنکھوں کی ٹھنڈک کاسامان بنتی ہے۔بچپن میں ان کے دل کا سرور، جوانی میں آنکھوں کا نور اوروالدین کے بوڑھے ہوجانے پر ان کی خدمت کرکے ان کا سہارا بنتی ہے۔ پھر جب یہ والدین دنیا سے گزرجاتے ہیں تویہ سعادت مند اولاد اپنے والدین کے لئے بخشش کا سامان بنتی ہے یقیناً وہی اولاد اخروی طور پر نفع بخش ثابت ہوگی جو نیک وصالح ہو اولاد کی تربیت صرف ماں یامحض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم:6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔

اولاد کی تربیت اسلامی ماحول میں کی جائے۔ اولاد کی تربیت کے لئے والدین کا اپناکردار بھی مثالی ہونا ضروری ہے۔اسکے ساتھ ساتھ گھریلو ماحول کا بھی بچوں کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اگر گھر والے نیک سیرت، اور خوش اخلاق ہوں گے تو ان کے زیر سایہ پلنے والے بچے بھی حسن اخلاق کے پیکر باکردار ہونگے۔جب بچہ ذرا ہوشیار ہوجائے اور زبان کھولنے لگے تو سب سے پہلے اس کے خالق ومالک اور رازق کا اسم ذات اللہ سکھانا چاہیے انہیں زبان کھلتے ہی کلمہ طیبہ سکھایا جائے۔ والدین کو چاہیے کہ جب ان کی اولاد سن شعور کو پہنچ جائے تو اسے اللہ تعالیٰ، فرشتوں، آسمانی کتابوں، انبیاء کرام علیہم السلام، قیامت اور جنت ودوزخ کے عقائد سکھائے جائیں۔ والدین کو چاہیے کہ سرکار مدینہ ﷺ کی سیرت کے مختلف واقعات بچوں کو سناتے رہیں تاکہ اس کے دل میں عشق رسول ﷺ پروان چڑھتا چلا جائے انہیں درود شریف پڑھنے کے فضائل بتاتے رہیں۔

بچوں کے دل میں صحابہ کرام واہل بیت رضی اللہ عنہم کی عقیدت پیدا کریں۔ اس کے لئے بچوں کو ان کے نفوس قدسیہ کی سیرت کے نورانی واقعات سنائیں بچوں کا دل و دماغ قرآن کی روشنی سے آراستہ کیا جائے تو ان شاء اللہ ان کا باطن بھی منوّر ہوجائے گا۔ شاہ بنی آدم ﷺ نے اپنی اولاد کو تعلیم قرآن سے آراستہ کرنے والوں کو کئی بشارتیں عطا فرمائی ہیں۔ چنانچہ دوجہاں کے سلطان ﷺ کا فرمان مغفرت نشان ہے: جو شخص اپنے بیٹے کو ناظرہ قرآن کریم سکھائے اس کے سب اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ (معجم اوسط، 1/524، حدیث: 9635) جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز پڑھنا سکھائیں اور اسے پانچوں وقت کی نماز ادا کروائیں تاکہ بچپن ہی سے ادائیگی نماز کی عادت پختہ ہو۔

بچے کو صبح سویرے اٹھنے اور وضو کر کے نماز پڑھنے کی عادت ڈالئے۔ جب بچہ روزہ رکھنے کے قابل ہوجائے تو اسے روزہ رکھوایا جائے۔نمازو روزہ کی اہمیت و فرضیت کا بتایا جائے۔اپنی اولاد کو کامل مسلمان بنانے کے لئے علم دین سے آراستہ کرنا بے حد ضروری ہے۔بچوں سے سچ بولئے انہیں بہلانے کے لئے جھوٹے وعدے نہ کیجئے والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو ہر ایک سے حسن اخلاق کے ساتھ پیش آنے کی ترغیب دیں ابتداء ہی سے اپنے بچوں کو کھانا کھانے، پینے کے آداب و سنت، بڑوں کا ادب احترام کرنے گفتگو کے آداب سکھائیں۔ بال کاٹنے،لباس پہننے، گھر میں داخل ہونے،سونےاور جاگنے کے آداب و سنت اور مختلف دعائیں بھی سکھائیں۔ اپنی اولاد کوان کے جسم وجاں کی ناتوانی کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ رب تعالیٰ کی بے نیازی سے ڈراتے رہیے۔ان کا ذہن بنائیے کہ جب بھی کوئی نعمت ملے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ بندہ ہرنوالے اور ہر گھونٹ پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔

بچے کو سکھایا جائے کہ کسی مسلمان کی ضرورت پراپنی ضرورت قربان کردینے کا بڑااجروثواب ہے اور اس سے کہیں اپنی فلاں ضرورت کی چیز فلاں بچے کو دے دے۔ اللہ کے محبوب ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنی ضرورت کی چیز دوسرے کو دے دے تو اللہ اسے بخش دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں صبر کرنے اسکے فوائد وبرکات بھی بتائیں۔ اپنی اولاد کو والدین کا ادب و احترام بھی سکھائیے۔ماں باپ کو چاہیے کہ ایک سے زائد بچے ہونے کی صورت میں انہیں کوئی چیز دینے اور محبت وشفقت میں برابری کا اصول اپنائیں۔بلاوجہ شرعی کسی بچے بالخصوص بیٹی کو نظر انداز کر کے دوسرے کو ترجیح نہ دیں۔اپنے بچوں اور دیگر اہل خانہ پر دل کھول کر خرچ کیجئے بچوں کو رزق حلال کھلائیں جب کوئی نیا پھل آئے تو اپنے بچوں کو کھلائیے کہ نئے کو نیا مناسب ہے۔ پھل وغیرہ بانٹنے میں پہلے بیٹیوں کو دیجئے کہ ان کا دل بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ والدین کو اپنے بچے پرکڑی نظر رکھنی چاہیے کہ وہ کس قسم کے رسائل یا کتابیں پڑھتا ہے۔ کہیں وہ رومانی ناول یا گمراہ کن عقائد پر مشتمل بدمذہبوں کی کتابیں پڑھنے کا عادی تو نہیں۔اسے اپنے اسلاف کی حکایات اور صحیح العقیدہ علماء کی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دلائی جائے۔کھیلنے کا موقع بھی دیں۔

جامع صغیر میں ہے: یعنی بچے کا بچپن میں شوخی اور کھیل کود کرنا، جوانی میں اس کے عقل مند ہونے کی علامت ہے۔انہیں بڑے کھیلوں پتنگ بازی کے نقصانات فلموں ڈراموں، آتش بازی کے نقصانات اور اسلام میں انکی ممانعت کے بارے میں بتائیں۔ گالی دینے وعدہ خلافی، حسد، بغض و کینہ جھوٹ جیسی بیماریوں سے بچائیں اپنے بچوں کو مبتلائے تکبر ہونے سے بچانے کے لئے انہیں عاجزی کی تعلیم دیں اپنی اولاد کو قناعت کی تعلیم دیجئے کہ رب تعالیٰ کی طرف سے جو مل جائے اسی پر راضی ہوجائیں۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رحمت عالم نور مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قناعت کبھی ختم نہ ہونے والاخزانہ ہے۔ (کتاب الزھد الکبیر، ص 88، حدیث: 104) جب بچے بڑے ہوجائیں تو بستر الگ کردیئے جائیں۔حضرت سیدنا عبدالملک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رحمت کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ الگ کردو۔ (مستدرک، 1/449، حدیث: 748)

والدین مشاہدہ کریں کہ ان کا بچہ کس قسم کے بچوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔ اگر اس کے قریب جمع ہونے والوں میں بری عادات پائی جاتی ہیں تو شفقت ونرمی کے ساتھ بچے کو ایسے بچوں سے ملنے سے روکیں کیونکہ ہر صحبت اپنا اثر رکھتی ہے۔نیک اعمال پر استقامت کے علاوہ ایمان کی حفاظت کے لیے اپنے بچوں کو کسی پیر کامل کا مرید بنائیں ان شاء اللہ اولاد نیک صالح باادب ہوگی۔