اولاد انسانی اقدار کی بقا اور تحفظ کا ذریعہ ہے انہیں
سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ یہی قوم کا مستقبل ہیں، اولاد اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت
ہے، قرآن کریم میں اس نعمت عظمیٰ کی طرف
اشارہ کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِیْنَ وَ حَفَدَةً (پ
14، النحل: 72) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے لیے تمہاری عورتوں سے بیٹے اور پوتے
نواسے پیدا کیے۔
اسلام نے جیسے دوسرے حقوق العباد پر زور دیا ویسے
اولاد کے بھی حقوق بیان فرمائے۔ چند درج ذیل ہیں:
1)اچھا نام رکھنا: اچھا نام
والدین کی طرف سے اولاد کیلئے پہلا اور بنیادی تحفہ ہوتا ہے جسے وہ عمر بھر سینے
سے لگائے رکھتا ہے۔یہاں تک کہ روز حشر بھی اسی نام سے پکارا جائے گا۔ بہار شریعت
میں ہے: جو نام برے ہوں ان کو بدل کر اچھے نام رکھنے چاہئیں۔ حدیث میں ہے: قیامت
کے دن تم اپنے اور اپنے باپوں کے نام سے پکارے جاؤ گے، لہذا اپنے اچھے نام رکھو۔ (ابو
داود، 4/374، حدیث: 4948)
یہاں ان کے لیے عبرت ہے جو اپنی اولاد کے نام فلمی
اداکار یا کفار کے ناموں پر رکھتے ہیں۔ اس سے بدترین ذلت اور کیا ہوگی کہ مسلمان
اولاد کو کفار کے ناموں سے پکارا جائے۔
بچوں کے نام عبدالرحمن، عبداللہ،احمد، حامد وغیرہ
حمد کے نام یاانبیاء کرام علیہم السلام اور اپنے بزرگوں میں سے جو نیک لوگ گزرے
انکے ناموں پر اور بچیوں کے نام صحابیات و صالحات کے نام پر رکھنے چاہئیں۔
2) یکساں سلوک: اگر
چند بچے ہوں تو غذا،لباس،اور رہن سہن میں سب کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کیا
جائے۔بلکہ بیٹیوں سے زیادہ دلجوئی رکھیں کہ ان کا دل بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ جو چیز
لائیں یکساں دیں۔ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح نہ دیں۔ (مشعلۃ الارشاد،ص 27) اور انہیں بوجھ نہ جانیں۔ قرآن کریم میں ہے: وَ اِذَا بُشِّرَ
اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ(۵۸) (پ
14، النحل: 58) ترجمہ کنز الایمان: اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی
جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں کا
طریقہ ہے۔ فی زمانہ مسلمانوں میں بھی بیٹی پیدا ہونے پر غمزدہ ہو جانے، بیٹی کی
ولادت کی خوشی میں مٹھائی بانٹنے میں عار محسوس کرنے، صرف بیٹیاں پیدا ہونے کی وجہ
سے ماؤں پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں طلاقیں دے دینے تک کی وبا عام ہے، حالانکہ
بیٹی پیدا ہونے اور اس کی پرورش کرنے کی بہت فضیلت ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: حضور
پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اور اس کی
توہین نہ کرے اور اپنے بیٹوں کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل
فرمائے گا۔
3)اچھی تربیت: تربیت کا تعلق
ذہنی اور روحانی نشونما سے ہوتا ہے۔اولاد کی اچھی تربیت کا ذمہ والدین پر ہے اور
یہ والدین کیلئے اجر کا باعث ہے، جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: والدین کا اولاد کی
تربیت میں مشغول رہنا نوافل میں مشغولیت سے بہتر ہے۔ (بہار شریعت،6/106، حصہ: 7)
اچھی تربیت میں اولاد کو ادب سکھانا، ان میں اچھی
عادتیں اور اعلیٰ اخلاق پیدا کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
والدین کی ایک تعداد اس انتظار میں رہتی ہے کہ بچہ
بڑا ہو جائے تو اخلاقی تربیت کریں گے تو یاد رکھیں بچہ بچپن میں جو سیکھتا ہے وہ
ساری عمر ذہن میں راسخ رہتا ہے لہذا بچے کے ہوش سنبھالتے ہی تربیت شروع کر دینی
چاہے۔ بنیاد مضبوط ہو گی تو ان شاءاللہ عمارت بھی پختہ ہو گی۔ اگر اپنی اولاد کی
اچھی تربیت کریں گے اور انہیں نماز روزہ اور اس کے علاوہ دیگر احکام شرعیہ پر عمل
کرنے کا پابند بنائیں گے تو یہ اولاد دنیا میں بھی آپ کے لیے راحت اور آخرت میں
بھی بخشش کا سامان ہو گی۔
تاجدار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب آدمی مر جاتا
ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین کاموں کے کہ ان کا سلسلہ
جاری رہتا ہے: (1)صدقہ جاریہ (2)وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ (3)نیک اولاد جو
اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔ (مسلم، ص 684، حدیث: 4223)
4) علم دین سیکھانا: بچوں
کو بچپن ہی سےعقائد اسلام کے متعلق علم سکھانا چاہیے۔ اسلئے کہ بچہ دین اسلام اور
حق باپ قبول کرنے کیلئے پیدا کیا گیا ہے اس وقت کا بتایا پتھر کی لکیر ہوگا۔ نیز طہارت،
عبادات، تصوف، ظاہری و باطنی گناہوں کے متعلق علم سکھائیں۔ لڑکیوں کو سورہ نور اور
لڑکوں کو سورہ مائدہ سکھانی چاہیے۔ (ماخوز از مشعلتہ الارشاد،ص 25،27)
علم دین حاصل کرنے کی فضیلت بھی بہت زیادہ ہے۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو تلاش علم میں نکلا وہ واپسی تک اللہ کی راہ میں
ہے۔ (مراۃ المناجیح،1/220)
5)حق میراث: اولاد کے حقوق
میں سے ایک اہم حق میراث کا ہے۔ اسلام نے اولاد کو والدین کی جائیداد میں نہ صرف
شریک کیا بلکہ انکے حصے بھی متعین کیے۔ چنانچہ اللہ رب العزت فرماتا ہے: یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ
اَوْلَادِكُمْۗ-لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِۚ-(پ
4، النساء: 11) ترجمہ کنز العرفان: اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے
میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر۔ اس آیت سے میراث میں بیٹیوں کا حصہ بھی ثابت
ہوتا ہے۔ بیٹیاں اپنے حصے کا مطالبہ نہ کریں، تب بھی ان کا شرعی حصہ دینا ضروری ہے،
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شریعت میں ان کا حصہ مقرر کیا ہے۔انکو انکے شرعی حصے سے
محروم کرنا شدید جرم ہے۔
اسی طرح بعض اپنے کسی بیٹے کو عاق کر دیتے ہیں یا
کہہ دیتے ہیں کہ ہماری میراث سے اسے کچھ نہ دیا جائے یہ محض بے کار ہے اس سے وہ
وارث محروم نہ ہوگا۔ حدیث پاک میں ہے رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنے وارث کو اس
کی میراث سے محروم کرے۔ تو الله اس کو قیامت کے دن جنت کی میراث سے محروم کر دے
گا۔ (ابن ماجہ، 3/304، حدیث: 2703)
اللہ پاک ہمیں اولاد کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے
اور اولاد کو انکے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔