نبیِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری کلام یہ تھا:نماز،نماز یعنی نماز کی پابندی کرو اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو۔ نماز اللہ پاک کی عبادت،مومن کی معراج اور دین کا ستون ہے۔اللہ پاک نے جابجا نماز کی تاکید فرمائی ہے۔ایک جگہ ارشاد فرمایا: ترجمہ:اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔(پ16،طہ:14)حضرت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:ایمان کے بعد نماز بہت اہم فریضہ ہے۔نماز اللہ پاک کی یاد کے لیے ہو نہ کہ لوگوں کو دکھانے کے لیے۔(تفسیر نور العرفان، ص498)نماز ادا کرنے سے چند اہم باتیں حاصل ہوتی ہیں لیکن بشرطیکہ خشوع و خضوع سے ادا کی جائیں۔ان میں سے چند باتیں یہ ہیں:رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔نماز نیکیوں کے پلڑے کو وزنی بنا دیتی ہے۔نماز سے روزِ محشر اللہ پاک راضی ہو گا۔نماز قبر کی تاریکی و تنہائی میں ساتھ دیتی ہے۔(فیضانِ سنت،باب نماز کے فضائل،ص944بحوالہ:تذکرۃ الواعظین) 1۔خادمِ نبی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسالت مآب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے مغرب کی نماز باجماعت ادا کی اس کے لیے مقبول حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا اس نے شبِ قدر میں قیام کیا۔(جمع الجوامع،7/195،حدیث:2231،کتاب فیضان نماز)شرح :اس حدیثِ مبارکہ میں مردوں کے لیے ہے کہ مغرب کی نماز جماعت پڑھنے سے نمازِ فرض ادا ہوگی ساتھ مقبول حج اور عمرے کے ثواب کا بھی حق دار قرار پائے گا۔صرف یہی نہیں بلکہ وہ شخص ایسا ہے جیسے اس نے شبِ قدر میں ساری رات قیام کیا۔2۔رسولِ نذیر،سراجِ منیر، محبوبِ ربِّ قدیر کا فرمانِ دلپذیر ہے:جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان میں کوئی بات نہ کہے تو بارہ برس کی عبادت کے(ثواب کے) برابر کی جائیں گی۔(ترمذی،1/439،حدیث:435)شرح:اس سے مراد صلاۃ الاوابین ہے اس کے پڑھنے کی بہت فضیلت ہے۔ اگر نماز ادا کرنے والا فرائض و واجبات کے ساتھ نماز ادا کرے گا تو وہ صحیح طرح سے انعام اکرام پانے کا حق دار قرار پائے گا۔اس کے نامۂ اعمال میں بارہ سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا۔3۔نمازِ مغرب کے بعد چھ نوافل ادا کرنے کے متعلق ایک اور حدیثِ مبارکہ میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں:جو مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اگرچہ سمندر کے جھاگ برابر ہوں ۔(معجم اوسط،5/255،حدیث:7245)شرح:فرائض کی ادائیگی بہت لازمی ہے نوافل قبول ہونے کا دارومدار فرائض کو صحیح طریقے سے ادا کرنے پر ہے۔ اس حدیثِ مبارکہ میں صلاۃ الاوابین ادا کرنے کی فضیلت بیان کی جا رہی ہے (مشہور فضیلت والے نوافل قضائے عمری کے ساتھ پڑھنے کی اجازت ہے)اس لیے جن کی قضا نمازیں باقی ہوں ان کا حساب اس طرح سے لگائیے کہ باقی کوئی نماز نہ رہ جائے اور ان نمازوں کی قضا کرنے کا معمول بنالیجئے۔(طبرانی)4۔ امام احمد اور ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہما حضرت ابو ایوب اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں،شفیعُ المذنبین، رحمت اللعالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:میری امت فطرت پر رہے گی جب تک مغرب میں اتنی تاخیر نہ کرے کہ ستارے گتھ جائیں۔غروبِ آفتاب کے بعددو رکعت پڑھنے کے وقت کی مقدار سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ تنزیہی ہے اور اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے نکل آئیں تو مکروہِ تحریمی ( ناپسندیدہ/باقریب حرام)ہے لیکن عذرِ شرعی،سفر یا مرض وجہ سے اتنی تاخیر ہو جائے تو حرج نہیں۔(درمختار) اگر آپ اللہ پاک کی رحمت کی حق دار بننا چاہتی ہیں تو پابندی سے فرض نمازیں وقت پر ادا کرتی رہیں ہوسکے تو فرائض کے ساتھ نوافل بھی ادا کرتی رہیں ان شاءاللہ مغفرت کا سامان بن جائے گا۔اگر آپ نیک اعمال پر استقامت پانا چاہتی ہیں تو پابندی کے ساتھ دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام ہر ہفتہ ہونے اجتماعات میں شرکت فرماتی رہیں ان شاءاللہ اس کی برکت سے گناہوں سے بچنے والی زندگی گزارنے کا ذہن بنے گا اور آپ کا سینہ مدینہ بن جائے گا ۔اللہ کریم ہمیں پابندی کے ساتھ وقت پر نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم