نماز دین کا ستون ،یقین کا وسیلہ ،عبادات کی اصل ،اور طاعات کی چمک ہے۔اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتبا موقوتا۔ترجمہ:بیشک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے ۔(پ5، سورہ النساء:103)اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:واقم الصلوۃ لذکری۔ترجمہ:اور میری یاد کیلئے نماز قائم رکھ۔ (پ 16،سورہ طہ،آیت 14)حدیثِ مبارکہ میں ارشاد ہے:بے شک نمازیں گناہوں کا کفارہ ہیں،جب تک کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔(صحیح مسلم، کتاب الطھارہ، باب صلاۃالخمس ،حدیث 223،ص 144)بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی:کون سا عمل افضل ہے ؟ارشاد فرمایا:وقت پر نماز ادا کرنا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان ،باب بیان کون ایمان باللہ، حدیث 85،ص 58)مشکل کام کا ثواب زیادہ ہے:دیگر نمازیں ادا کرنا قدرے آسان ہوتی ہیں، کیونکہ وہ کسی شحص کے ماحول ،کام اور نیند میں زیادہ حائل نہیں ہوتیں،لیکن عشا کی نماز ادا کرنا اور پابندی سے ادا کرنا، انہیں لوگوں کا حصّہ ہے، جن سے نیکی کی امید کی جاتی ہے ،رات کے وقت سارے دن کے کاموں کی تھکن ،نیند کا غلبہ ،اور سکون و اطمینان اور آرام طلبی انسانی فطرت کا حصہ ہے،اس وقت میں نمازِ عشا ادا کرنا یقینا نیک اور کاملین کا حصہ ہے،کیونکہ جس عبادت میں مشقت زیادہ ہوتی ہے، اس کا ثواب بھی زیادہ ہوتا ہے اور اللہ پاک کی رضا کے طلبگاروں کیلئے ایسی مشقت محبوب ہوتی ہے۔عشا کسے کہتے ہیں؟عشا رات کے اندھیرے کو کہتے ہیں،کیونکہ یہ نماز رات کی تاریکی چھا جانے کے بعد پڑھی جاتی ہے ،اس لئے اس کا نام نمازِ عشا ہوا۔سب سے پہلے نمازِ عشا کس نے ادا کی؟ایک روایت کے مطابق نمازِ عشا سب سے پہلے حضور پر نور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ادا فرمائی۔(شرح معانی الآثار1/175،حدیث1046) ایک روایت کے مطابق عشا کی نماز سب سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام نے ادا فرمائی،جس وقت آپ حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس سے دس سال قیام کے بعد واپس مصر تشریف لارہے تھے ،تو آپ علیہ السلام پر چار فکریں طاری تھیں، گھر میں ولادت کا وقت تھا اس کی فکر، اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی فکر، فرعون کا خوف،اپنی ہونے والی اولاد کی فکر۔رات بہت ٹھنڈی تھی،حضرت موسی علیہ السلام نے کوہِ طور پر آگ جلتی دیکھی تو آگ لینے کیلئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے، لیکن وہاں پر اللہ پاک نے انہیں نبوت عطا فرمائی تو آپ علیہ السلام نے ان چار فکروں سے نجات اور نبوت ملنے کی خوشی پر چار رکعتیں ادا فرمائیں، اللہ پاک کو یہ چار رکعتیں پسند آئیں اور امتِ محمدیہ پر نمازِ عشا فرض کر دی گئی۔(شرح معانی الآثار، کتاب الصلاۃ ،باب الصلاۃ،حدیث 226، جلد 1)فضیلت نمازِ عشا :نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اندھیرے یعنی (فجر و عشا ) میں چل کر مسجد آنے والوں کو قیامت کے دن کامل نور کی بشارت دے دو۔ (ترمذی شریف، حدیث 223)آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اگر لوگوں کو نمازِ عشا اور فجر کی نماز کا ثواب معلوم ہو جائے تو وہ ان دونوں نمازوں میں ضرور آئیں، خواہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے کیوں نہ آنا پڑے۔(سنن ابن ماجہ ،باب الصلاۃ، حدیث796)اس حدیث سے عشا و فجر کی بڑی فضیلت حاصل ہوتی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان دونوں نمازوں کا وقت نیند اور سستی کا ہوتا ہے اور نفس پر بہت شاق ہوتا ہے کہ آرام چھوڑ کر نماز کیلئے حاضر ہواور جو عبادت نفس پر زیادہ شاق ہو، اس میں زیادہ ثواب ہے۔ نمازِ عشا نہ پڑھنے کی وعید: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہمارے اور منافقین کے درمیان عشا اور فجر کی حاضری کا فرق ہے، منافقین میں ان دو نمازوں میں حاضری کی طاقت نہیں۔(موطا امام مالک، کتاب صلاۃ،حدیث 298 ،جلد 1 ،ص 133)نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:منافق لوگوں پر فجر و عشا کی نماز سے زیادہ کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر یہ جانتے کہ ان نمازوں میں کیا ثواب ہے تو زمین پر گھسٹتے ہوئے پہنچتے۔(صحیح بخاری، 657)ہمیں چاہیے دیگر نمازوں کی طرح نمازِ عشا کی پابندی کا خیال رکھیں، خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی ادائیگی کریں۔اللہ پاک ہمیں نمازِ عشا کی برکتوں سے مالا مال فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم