اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ مگر صد کروڑ افسوس آج کل مسلمانوں کو نماز کی بالکل پرواہ ہی نہیں ۔ ہماری مسجدیں نمازیوں سے خالی نظرآتی ہیں۔ اللہ پاک نے نماز فرض کر کے ہم پر یقیناً احسان عظیم فرمایا ہے۔

آئیے نماز فجر کے بارے میں پانچ فضائل سنتے ہیں۔

(1) حضرت علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: جو فجر کی نماز اخلاص کے ساتھ پڑھے وہ اللہ پاک کی امان( یعنی حفاظت) میں ہے اور خاص صبح (یعنی فجر) کی نماز کا ذکر کرنے میں حکمت ہے کہ اس نماز میں مشقت (یعنی محنت) ہے اور اس پر پابندی صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس کا ایمان خالص ہو ، اس لئے وہ امان (یعنی پناہ) کا مستحق ہوتا ہے۔

دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ اللہ پاک کا ذِمَّہ توڑنے کی سخت وعید (یعنی سزا کی دھمکی) اورفجر کی نماز پڑھنے والے شخص کوایذا(یعنی تکلیف) پہنچانے سے ڈرنے کا بیان ہے۔ (فیض القدیر 6/213تا 214)

(2) حضرت سیِّدُنا ابو عُبَیْدہ بن جَرَّاح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم، رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جُمعہ کے دن پڑھی جانے والی فجر کی نمازِ باجماعت سے افضل کوئی نماز نہیں ہے،میرا گمان (یعنی خیال) ہے تم میں سے جواُس میں شریک ہوگا اُس کے گناہ مُعاف کردیے جائیں گے۔‘‘( فیضان نماز، ص 96)

(3) حضرتِ سیِّدُنا اَنَس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ جس نے چالیس دن فجر و عشا باجماعت پڑھی اُس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا۔ ایک نَار(یعنی آگ) سے ،دوسری نفاق (یعنی مُنافقت) سے۔‘‘ ( فیضان نماز، ص 97)

حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، سردارِ مکۂ مکرمہ ،سرکارِ مدینہ منورہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں : جو صبح کی نماز پڑھتا ہے وہ شام تک اللہ پاک کے ذِمے میں ہے ۔( فیضان نماز، ص 87)

امام فقیہ ابواللَّیث سمر قندی رَحْمۃ اللہِ علیہ نے (تابعی بزرگ) حضرت کعبُ الاحبار رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ اُنہوں نے فرمایا: میں نے ’’تورَیت‘‘ کے کسی مقام میں پڑھا (اللہ پاک فرماتا ہے): اے موسیٰ! فجر کی دو رَکعتیں احمد اور اس کی اُمت ادا کرے گی، جو انہیں پڑھے گا اُس دن رات کے سارے گناہ اُس کے بخش دوں گا اور وہ میرے ذِمّے میں ہوگا۔( فیضان نماز ،ص:86)