1: نمازِ عصر کا ڈبل اجر: حضرتِ  ابو بَصرہ غِفارِی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نُور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کردیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرےگا اسے دُگنا(یعنی Double) اجر ملے گا۔ (مسلم، ص322، حدیث:1927) حضرتِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تَحت لکھتے ہیں:یعنی پچھلی اُمَّتوں پر بھی نمازِ عصر فرض تھی مگر وہ اِسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مُستحق ہوئے، تم ان سے عِبرت پکڑنا۔ (مراۃ المناجیح،2/1927) د‌گنے اجر کی وجوہات کے مدنی پھول:پہلا اجر‌ پچھلی امّتوں کے لوگوں کی محالفت کرتے ہوئے عصر کی نماز پر پابندی کی وجہ سے ملے گاجس طرح دیگر نمازوں کا ملتا ہے۔ پہلا اجر عبادت پر پابندی کی وجہ سے ملے گا اور دوسرا اجر قناعت کرتے ہوئے خریدو فروحت چھوڑنے پر ملے گا کیوں کہ عصر کے وقت لوگ بازاروں میں کام کاج میں مصروف ہوتے ہیں۔ پہلا اجر عصر کی فضیلت کی وجہ سے ملے گا کیوں کہ یہ صلوۃِ وسطی (یعنی درمیانی نماز) ہے اور دوسرا اجر اس کی پابندی کے سبب ملے گا۔2:اہل‌و عیال اور مال میں بربادی :صحابی ابنِ صحابی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کی نمازِ عصر نکل گئی( یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑے) گویا اس کے مال‌ و عیال وتر ہو (یعنی چھین لیے) گے۔وتر کا مطلب:حضرت علامہ ابو سلیمان خطابی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :وتر کا معنیٰ ہے:نقصان ہونا یا چھین جانا۔پس جس کے بال بچے چھن گے یا اس کا نقصان ہو گیا گویا وہ اکیلا رہ گیا۔ لہٰذا نماز کے فوت ہونے سے انسان کو اس طرح ڈرنا چاہیے جس طرح وہ اپنے گھر کے افراد اور مال و دولت کے جانے (یعنی برباد ہونے) سے ڈرتا ہے۔3:حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے: جب مرنے والا قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا اور کہتا ہے: مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ ( ابنِ ماجہ،4 /503، حدیث:4272)اے فرشتو! سوالات بعد‌ میں کرنا:حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ پاک کے اس حصے ” سورج ڈوبتا ہوا معلوم ‌ہوتا‌ ہے“کے ‌تحت فرماتے ہیں :یہ احساس منکر نکیر کے جگانے پر ہوتا ہے خواہ دفن کسی وقت ہو ۔چونکہ نمازِ عصر کی زیادہ تاکید ہے اور آفتاب( یعنی سورج ) کا ڈوبنا اس کا وقت جاتے رہنے کی دلیل ہے،اس لیے یہ وقت دکھایا جاتا ہے۔حدیث کے اس حصے ”مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں “کے تحت لکھتے ہیں : یعنی اے فرشتو!سوالات بعد میں کرنا عصر کا وقت جا رہا ہے مجھے نماز پڑھ لینے دو۔ یہ وہی کہے گا جو دنیا میں نمازِ عصر کا پابند تھا۔ اللہ نصیب کرے۔ اسی لیے رب کریم فرماتا ہے : ترجمۂ کنزالایمان: نگہبانی ( یعنی خفاظت ) کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی۔ ( پ2 البقرہ: 238 ) یعنی‌ تمام نمازوں کی‌ حصوصاً عصر کی بہت نگہبانی ( یعنی حفاظت) کرو۔صوفیا فرماتے ہیں:جیسے جیو گے ویسے ہی مرو گے اور جیسے مرو گے ویسے ہی اٹھو گے۔خیال رہے! مومن کو اس وقت ایسا معلوم ہوگا جیسے میں سو کر اٹھا ہوں نزع وغیرہ سب بھول جاے گا۔ ممکن ہے کہ اس عرض ( مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں ) پر سوال جواب نہ ہوں اور ہوں تو نہایت آسان کیونکہ اس کی یہ گفتگو تمام سوالوں کا جواب ہو چکی۔ (مراۃ المناجیح،1/ 142) 4: فرشتوں کی تبدیلیوں کے اوقات :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مدینے کے تاجدار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں پھر وہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے:تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟عرض کرتے ہیں:ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔( بخاری ،/ 203 ،حدیث: 555 )حضرت مفتی‌ احمد‌ یار‌ نعیمی رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ پاک کے اس حصے ” فجر و عصر کی‌ نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں“ کے تحت فرماتے ہیں: یہاں فرشتوں سے مراد یا تو اعمال لکھنے والے دو فرشتے ہیں یا انسان کی حفاظت والے ساٹھ فرشتے ہر نا بالغ کے ساتھ ساٹھ (60) فرشتے رہتے ہیں اور بالغ کے ساتھ 62 فرشتے اسی لیے نماز کے سلام اور دیگر سلاموں میں ان کی نیت کی جاتی ہے ان ملائکہ کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں دن میں اور رات میں مگر عصر و فجرپچھلے فرشتے جانے نہیں پاتے کہ اگلے ڈیوٹی والے آجاتے ہیں تاکہ ہماری ابتدا و انتہا ( یعنی شروع کرنے اور ختم کرنے کی کیفیت ) کے گواہ زیادہ ہوں اس حصے” اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں“ کے تحت لکھتے ہیں:اپنے ہیڈ کوارٹر کی طرف جہاں ان کا مقام ہے ۔ مفتی صاحب حدیث کے اس حصے ” ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس گے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے“ کے تحت تحریر کرتےہیں:اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ فرشتے نمازیوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں کہ آس پاس کی نیکیوں کا ذکر اور درمیان کے گناہوں سے خاموشی یا یہ مطلب ہے کہ اے مولا ! جن بندوں ابتدا و انتہا ( یعنی شروعات اور ختم ہونے کی کیفیت ) ایسی ہو اس میں ہمیشہ برکت ہی رہتی ہے۔ ( مراۃ المناجیح،1/ 394تا 395) 5: فجر و عصر پڑھنے والا جہنم میں نہیں جائے گا: حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے مصطفے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے ( یعنی نکلنے اور ڈوبنے )سے پہلے نماز ادا کی( یعنی جس نے فجر و عصر کی نماز پڑھی) وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہو گا۔ ( مسلم،ص 250 ،حدیث: 1436)