فارغ وقت یوں ہی پڑے پڑے گزارنے کے بجائے ہم کو فرائض
کے ساتھ ساتھ نوافل میں گزارنا چاہیے کہ زندگی کا کچھ پتہ نہیں اور پھر مرنے کے
بعد یہ موقع غنیمت نہیں مل سکے گا ۔لہذا "فرصت کو مصروفیت سے پہلے غنیمت جان
لو " کہ وقت سے نفع اٹھائے اور نوافل پڑھنے میں مشغول ہو جائے۔ کہ نوافل کے بے شمار فضائل و برکات ہیں
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے میری
قربت چاہتا ہے ان میں سب سے زیادہ فرائض مجھے محبوب ہیں۔ اور نوافل کے ذریعے بندہ میرے قریب ہوتا رہتا یہاں تک کہ میں اس کو
محبوب بنا لیتا ہوں۔( صحیح بخاری 4/248)
اس حدیث پاک کے شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یعنی بندہ مسلمان فرض عبادات کے ساتھ نوافل بھی ادا کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ میرا پیارا ہو جاتا ہے کیونکہ فرائض
،نوافل کا جامع ہوتا ہے اور اس کا مطلب یہ
نہیں کہ فرائض چھوڑ کر نوافل ادا کرے۔ (مرآۃ المناجیح ،3/308)
حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : ’’ اے لوگو! سلام شائع(عام) کرو اور کھانا کھلاؤ اور رشتہ داروں سے نیک
سلوک کرو اور رات میں نماز پڑھو جب لوگ سوتے ہوں ، سلامتی کے ساتھ جنت میں
داخل ہوگے۔
(المستدرک للحاکم221/5،الحدیث:7359)
اور رات میں نماز پڑھنے
سے مراد نماز تہجد ہے ۔
نماز تہجد کے ساتھ اشراق و
چاشت و اوابین بھی پڑھنے چاہیے کہ حدیث پاک میں ہے: جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھی
اللہ پاک اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنائے گا ۔ اس طرح اشراق پڑھنے والوں کو
حج و عمرہ کا ثواب ملتا ہے۔ (سنن ترمذی 2/18)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدھی
رات میں بندے کا دو رکعت نماز پڑھنا دنیا اور اس کے تمام اشیاء سے بہتر ہے۔ اگر میری امت پر دشوار نہ
ہوتا تو یہ دو رکعتیں ان پر فرض کر دیتا۔ (کنز العمال 4/323)
ایک روایت میں یہ ہے کہ جبرائیل امین نے حضور صلی
اللہ وسلم سے عرض کی کہ ابن عمر عمدہ آدمی ہے کاش وہ رات کو عبادت
کرتا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو اس بات کی خبر دی ۔اس
کے بعد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہمیشہ رات کو عبادت کیا کرتے۔
( صحیح بخاری 1/382)
حضرت نافع رضی اللہ تعالی
عنہ کا قول ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ رات کو عبادت کرتے ہوئے مجھ سے کہا کرتے :"دیکھو
کہیں صبح تو نہیں ہوگئی؟ میں کہتا نہیں،
آپ پھر عبادت میں مشغول ہو جاتے۔ پھر فرماتے اے نافع
دیکھو صبح ہوئی ؟میں کہتا ہاں تو آپ بیٹھ جاتے ہیں اور استغفار کرتے یہاں تک
کہ صبح روشن ہو جاتی۔
دیکھا آپ میرے محترم بھائیوں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ قطعی
جنتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ پوری رات نوافل پڑھنے میں مشغول رہتے۔
امام بخاری علیہ رحمہ کے بارے میں کہا جاتا ہے
کہ آپ اکثر یہ اشعار پڑھا کرتے :۔
اغتم فی الفراغ فضل الرکوع فعسی ان یکون موتک بغتۃ
کم صحیح رایت من غیر سقم خرجت نفسہ الصحیحۃ فلتہ
(1)فراغت کے اوقات میں رکوع و سجود کو غنیمت جان،
عنقریب تجھے موت آجائے گی۔
(2) میں نے کتنے ایسے تندرست دیکھے ہیں جنہیں کوئی بیماری
نہیں تھی اور اچانک اس کی روح پرواز کر گئیں۔