صحیح بخاری شریف میں مذکور حدیث قدسی کا ایک حصہ ہے: اورمیرا بندہ کسی شے سے میرا اُس قدر قرب حاصل نہیں کرتا جتنا فرائض سے کرتا ہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے ہمیشہ قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنا لیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے، تو اسے دوں گا اور پناہ مانگے تو پناہ دوں گا۔

(صحیح البخاری،کتاب الرقاق،باب التواضع،الحدیث: 6502،ج4،ص248)

دن میں پڑھی جانے والی نفلی نماز میں سب سے پہلے چاشت کی نماز کا وقت آتا ہے۔ جس کے بارے میں ترمذی ،ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس نے چاشت کی نماز پر مواظبت اختیار کی تو اس کے گناہوں کو بخش دیا جائے گا اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔(زجاجۃ المصابیح،حدیث:1721)

جبکہ رات میں پڑھی جانے والی پہلی نفل نماز صلاۃ الاوابین ہے جو کہ مغرب کی نماز کے بعد پڑھی جاتی ہے جامع ترمذی میں منقول ہے جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کہے تو چھ رکعتیں بارہ برس کے عبادت کے برابر کی جائے گی ۔

(جامع ترمذی،حدیث:435)

مدنی پھول :ان چھ رکعتوں میں ایک آسانی یہ ہے کہ مغرب کے فرض کے بعد دو سنت اور دو نفل کے بعد فقط دو رکعتیں پڑھنے سے بھی یہ فضیلت حاصل ہو جائے گی۔

دن کے اور رات کے فقط ابتدائی نوافل کا تذکرہ اس لئے کیا تاکہ دن کے ابتدائی حصے میں پڑھے جانے والے نوافل سارا دن ،اور رات کے ابتدائی حصے سے میں پڑھی جانے والی نوافل ساری رات آفتوں اور بلاؤں سے حفاظت اور دیگر نیک اعمال میں ان کی برکت سے آسانی ہو جائے ۔

اللہ کریم ہمیں ذوق،شوق، محبت کے ساتھ نفلی نماز یں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی برکت سے ہمیں اپنی معرفت ،محبت اور اپنی رضا کی عظیم دولت سے سرفراز فرمائے ۔

اٰمین بجاہ خاتم النبیین علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم