حضرت
نَصْر بن علی رَحْمَۃ اللہ عَلَیْہ نے فرمايا کہ میں نے حضرت سیِّدُنا یزید بن
زُرَیْع رَحْمَۃاللہ عَلَیْہ کوخواب میں دیکھ کرپوچھا :مَافَعَلَ اللّٰہُ بِکَ یعنی اللہ پاک نےآپ کےساتھ کیامعاملہ فرمایا؟جواب دیا
: مجھےجنت میں داخل کردیاگیا۔ میں نےعرض کی : کس سبب سے؟فرمایا : کثرت سے نَوَافِل
ادا کرنے کی وجہ سے۔ (152 رحمت بھری حکایات ، ص114)
اس
سے معلوم ہوا کہ نفل کی کتنی فضیلت و اہمیت ہے ! افسوس صد افسوس ! انسان دنیا
کمانے کے لالچ میں اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ اسے آخرت کی فکر بھی نہیں رہی۔ دنیاوی
کاموں کے ساتھ ساتھ انسان کو فکرِ آخرت بھی کرنی چاہیے کہ اسے کل قیامت کو خدا کے
حضور بھی جواب دہ ہونا ہے۔ انسان کو اللہ تعالٰی نے اپنی عبادت اور بندگی کے لیے
پیدا کیا ہے۔ اسے چاہیے کہ رب کا شکر گزار بندہ بنے اور اپنے رب کے حضور فرض نماز
کے علاوہ بھی شکرانے کے طور پر زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرے اور حضور نبی کریم کا
مبارک معمول تھا جیسا کہ
حضرت
عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : ہمارے بخشے بخشائے آقا ، ہمیں بخشوانے والے
مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز میں اس قدر قیام فرماتے کہ آپ کے مبارک پاؤں سوج جاتے ۔
(ایک دن) حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہا نے عرض کی : یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ،آپ ایسا کر رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالٰی نے آپ کے صدقے آپ کے کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دیے ہیں !
حضور
پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اے
عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا !
اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا یعنی کیا میں
(اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا) شکر
گزار بندہ نہ بنوں !
(
صحیح مسلم ، حدیث: 81)
نیز اس شیطانی وسوسے سے بھی خود کو بچائیں کہ
صرف فرائض پڑھ لینے سے نماز ہو جاتی ہے باقی کونسا ضروری ہے، وہ ادا کریں نہ کریں کچھ
نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کیونکہ حضرت سیِّدُنا ابُوہُریرہ رَضِی اللہُ تَعالیٰ
عَنْہُ سے مروی ہے: میں نے حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس عمل کا حساب
ہوگا وہ نماز ہے، اگر یہ صحیح ہوا تو وہ کامیاب ہوجائے گا اور نجات پائے گا اور یہ
ٹھیک نہ ہوا تو وہ ناکام ہوگا اور نقصان اٹھائے گا۔ اگر اس بندے کے فرائض میں کچھ
کمی رہ جائے گی تو پروردِگار فرمائے گا: دیکھو کیا میرے بندے کے پاس کوئی نفلی
نماز ہے؟ پھر اس سے فرض کی کمی پوری کی جائے گی، پھر تمام اعمال کا ایسا ہی حساب
ہوگا۔(سنن ترمذی ،ج 2 ص 269-270، حدیث: 413 )
ولایت کا راستہ ، نوافل کی کثرت :حضرت سیِّدُنا
ابُوہُریرہ رَضِی اللہُ تَعالیٰ عَنْہُ سےمَروی ہے کہ دو جہاں کے تاجْوَر،سلطانِ
بَحرو بَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایاکہ
اللہ پاک ارشادفرماتا ہے: جس نے میرے کسی ولی کو اَذِیَّت دی، میں اس سے اعلانِ
جنگ کرتا ہوں اوربندہ میرا قُرب سب سے زِیادہ فرائض کے ذریعے حاصل کرتا ہے اور
نَوافل کے ذریعے مُسلسل قرب حاصل کرتا رہتا ہے،یہاں تک کہ میں اس سے مَحَبَّت کرنے
لگتا ہوں۔جب میں بندے کو محبوب بنا لیتا ہوں ،تومیں اس کے کان بن جاتا ہوں، جس سے
وہ سنتاہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں ،جس
سے وہ دیکھتا ہے۔اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن
جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔ پھروہ مجھ سے سوال کرے، تو میں اسے عطا کرتا ہوں،
میری پناہ چاہے، تومیں اسے پناہ دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری ،حدیث:6502 )
مُفَسّرِشہیر ، حکیمُ الاُمَّت حضرت مفتی
احمدیارخان رَحْمَۃ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اِس حدیثِ پاک کا ایک معنی یہ بھی
بیان فرمایا کہ وہ بندہ فَنا فِی ﷲ ہوجاتا
ہے، جس سے خُدائی طاقتیں اس کے اَعضاء میں کام کرتی ہیں اور وہ ایسے کام کرلیتا ہے
جوعقل سے وَراء ہیں جیسے حضرت (سَیِّدُنا)یعقوب عَلَیہ السَّلام نے کنعان میں بیٹھے ہوئے مِصْر سے چلی ہوئی
قمیصِ یُوسُفی کی خُوشبو سُونگھ لی، حضرت (سَیِّدُنا)سلیمان عَلَیہ السَّلام نے تین (3)مِیل کے فاصلہ سے چیونٹی کی آواز سُن
لی، حضرت آصِف بن بَرخیا نے پلک جھپکنے سے پہلے یمن سے تختِ بلقیس لا کر شام میں
حاضر کردیا۔ حضرت (سَیِّدُنا)عمر(رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ)نے مدینۂ مُنوَّرہ سے
خُطبہ پڑھتے ہوئے نَہاوند تک اپنی آواز پہنچادی۔حُضُورِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے قیامت تک کے واقعات بچشم مُلاحَظہ فرمالیے۔یہ سب
اِسی طاقت کے کرشمے ہیں۔ (مرآۃ المناجیح،ج3 ص308 )
یوں
تو ہمیں کثرت سے نوافل پڑھنے ہی چاہییں مگر جن نوافل کی احادیث میں فضیلت و ترغیب
آئی ہے ان کو تو اپنا معمول بنا لینا چاہیے لہذا اب احادیث میں مذکور چند نوافل کی
فضیلت ملاحظہ فرمائیں :
تہجّد کی فضیلت : اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تعالٰی
وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ سیِّدُ المُبَلِّغین،رَحمۃٌ لِّلْعٰلمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ دلنشین ہے : جنَّت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا باہَر اندرسے اور اندر باہَر سے دیکھا
جاتاہے۔ ایک اَعرابی نے اٹھ کرعرض کی: یارسولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ !
یہ کس کے لیے ہیں ؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: یہ اس کے لیے ہیں جونَرم گفتگوکرے ،کھانا کھلائے،مُتواتِرروزے رکھے ،اور
رات کو اٹھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کےلیے نماز پڑھے جب لوگ سوئے ہوئے ہوں ۔ (سُنَن تِرْمِذِیّ ج4 ص237 حدیث2535)
نمازِ اِشراق کی فضیلت: جونَمازِ فجر باجماعت ادا کرکے
ذکرُاللہ کرتا رہے یہاں تک کہ آفتاب
بُلند ہوگیا پھر دو رکعتیں پڑھیں تو اسے پورے حج و عمرہ کاثواب ملیگا۔
(سُنَن تِرْمِذِیّ،ج2،ص100حدیث586 )
نمازِ چاشت کی فضیلت:حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے کہ حُضُورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو چاشت کی دو رَکعتیں پابندی سے
اداکرتارہے اس کے گناہ مُعاف کردئیے جاتے ہیں اگرچِہ سمند رکی جھاگ کے برابر ہوں ۔(سُنَن ابن ماجہ،ج2 ص154 حدیث1382 )
صَلٰوۃُ الْاَوَّابِیْن کی فضیلت:حضرت
سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت
،محسنِ انسانیت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
فرمایا: ’’ جو مغرب کے بعدچھ رکعتیں اس
طرح ادا کرے کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کہے تو یہ چھ رکعتیں بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوں گی۔ (سنن ابن ماجہ،ج 2 ص 45 حدیث1167)
تَحِیَّۃُ الْوُضُو کی فضیلت:وُضو کے بعد
اعضا خشک ہونے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے۔ (دُرِّمُختَار،2/563 )
حضرتِ
سیِّدُنا عُقبہ بن عامِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو شخص وُضو کرے اور اچّھا وُضو کرے اور ظاہِر
و باطن کے ساتھ مُتَوَجِّہ ہو کر دو رَکعت پڑھے، اس کے لیے جنّت واجب ہو جاتی
ہے۔ (صَحِیح مُسلِم،ص144 حدیث 234 )
تَحِیَّۃُ الْمَسْجِد کی
فضیلت:حضرتِ
سیِّدُنااَبُوقتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:جو شخص مسجد میں داخل
ہو، بیٹھنے سے پہلے دو رَکعت پڑھ لے۔(صحیح بخاری، ج1 ص170، حدیث:444)
صَلٰوۃُ الْحَاجَات:حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ’’
جب حضور نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کوئی امرِ
اَہم پیش آتا تو نَماز پڑھتے۔
(سُنَنِ
اَبُو دَاوٗد ، حدیث1319 ج2 ، ص52 )
یہی
وجہ ہے کہ علماء کرام فرماتے ہیں : تیز آندھی آئے یا دن میں سخت تاریکی چھا جائے
یا رات میں خوفناک روشنی ہو یا لگاتار کثرت سے بارش برسے یا بکثرت اولے پڑیں یا
آسمان سُرخ ہو جائے یا بجلیاں گریں یا بکثرت تارے ٹوٹیں یا طاعون وغیرہ وبا پھیلے یا زلزلے آئیں یا
دشمن کا خوف ہو یا اور کوئی دہشت ناک امر پایا جائے ان سب کے لیے دو رَکعت نَماز
مُستَحَب ہے۔
(عالمگیری،ج1
ص153 / دُرِّمُختار،ج3 ص80 وغیرہما)
نَمازِ توبہ کی فضیلت:حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدِّیق
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں :
جب کوئی بندہ گناہ کرے پھر وُضو کر کے نَماز پڑھے پھر اِستغفار کرے، اﷲ تعالیٰ اس
کے گناہ بخش دے گا۔ (سُنَن تِرْمِذِی،
ج1ص415 حدیث406 )
گرہن کی نَماز:حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مَروی کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک زمانے میں ایک مرتبہ آفتاب میں گَہَن لگا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجِد میں تشریف لائے اوربَہُت طویل قِیام و رُکوع و سجود کے
ساتھ نَماز پڑھی کہ میں نے کبھی ایسا کرتے نہ دیکھا اور یہ فرمایا کہ اللہ پاک کسی کی موت و حیات کے سبب اپنی یہ نشانیاں ظاہِر نہیں فرماتا بلکہ ان سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے لہٰذا جب ان میں سے کچھ دیکھو تو
ذکر و دُعا و اِستِغفار کی طرف گھبرا کر اٹھو۔ (صَحِیح بُخارِی ،ج1 ص363 حدیث1059)
صَلٰوۃُ التَّسْبِیْح کی فضیلت: نبیِّ کریم
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے چچا جان حضرتِ سیِّدُنا عباس رَضِی
اﷲُتَعَالٰی عنہ سے فرمایا کہ اے میرے چچا! اگر ہو سکے توصَلٰوۃُ التَّسبِیح ہر
روز ایک بار پڑھئے اور اگر روزانہ نہ ہو سکے تو ہرجُمُعہ کو ایک بار پڑھ لیجئے اور
یہ بھی نہ ہوسکے تو ہر مہینے میں ایک بار
اور یہ بھی نہ ہو سکے تو سال میں ایک بار
اور یہ بھی نہ ہوسکے تو عمر میں ایک بار۔
(سُنَن اَبِی دَاوٗد ج2ص 35حدیث1297 )
ہر
مسلمان کو فرائض کے ساتھ ساتھ نفل نمازوں کا بھی ذہن بناناچاہیے ، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی بے شمار برکتیں دیکھیں گے۔
نفلی عبادات کا جذبہ پانے اور سنتوں پر عمل کی عادت ڈالنے کیلئے عاشقان رسول کی
مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہیے۔ سنتوں کی تربیت کے
لیے مدنی قافلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر کیجیے، کامیاب زندگی
گزارنے اور آخرت سنوارنے کے لیے ’’نیک اَعمال‘‘ کے مطابق عمل کرتے ہوئے روزانہ
’’جائزہ‘‘ کے ذریعے رسالہ پُر کیجیے
کیونکہ اگر ہم اَمِیرِ اَہلِسُنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے عطا کردہ
’’نیک اَعمال‘‘ کے رسالے کو ہی روزانہ کی بنیاد پر پُر کرنا شروع کر دیں تو یقیناً
فرائض کے ساتھ ساتھ دیگر نفلی عبادات پر بھی عَمَل ہوتا رہے گا۔
اللہ
عَزَّ وَجَلَّ ہمیں نمازِ پنج گانہ کے
ساتھ ساتھ نَوَافِل پڑھنے کی بھی توفیق عَطا فرمائے۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم