احسن صاحب ایک نہایت بارُعب  اور سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے، اپنے کمرے میں بیٹھے حامد کا اِنتظار کر رہے تھے، کُچھ دیر کے بعد گھبرائی ہوئی آواز میں کسی نے اندر آنے کی اجازت چاہی، احسن صاحب نے اندر آنے کی اجازت دی، حامد اِجازت پا کر کمرے میں داخل ہوا اور سلام کیا، حامد سولہ سالہ نوجوان تھا جو کہ دسویں جماعت میں پڑھتا تھا، وہ اِنتہائی محنتی تھا، صبح ہو یا شام، گرمی ہو یا سردی، دھوپ ہو یا چھاؤں، اسے تو بس اپنی پڑھائی سے پیار تھا، مگر ان تمام تر خوبیوں کے باوجود آج تیسری بار جب احسن صاحب نے ٹیسٹ رپورٹ دیکھی تو انہیں انتہائی دکھ ہوا، احسن صاحب نے حامد کے سلام کا جواب دیتے ہوئے اسے اِنتہائی شفقت کے ساتھ اپنے پاس بلایا اور کہا" کہ بیٹا آج میں آپ کو مطالعہ کرنے کے چند ایسے طریقے بتاؤں گا، اگر آپ اِن پر عمل پیرا ہو جاؤ تو وہ دن دور نہ ہو گا، جب کامیابی آپ کے قدم چومے گی"۔

سب سے پہلے یہ کہ اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانو، زندگی کا مقصد باری تعالی نے خود ہی پہچان کروا دیا، وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ۔(پارہ27،الذٰریٰت آیت نمبر56)

پھر اس مقصد کے تحت کتب کا انتخاب کرو، کتب کا انتخاب کرتے وقت تمہیں اس بات کا علم ہونا ضروری ہے، کہ کس چیز کا علم نہ ہونا بہتر ہے، تمہیں اپنے مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات جان لینی چاہئے کہ دماغ کو ڈسٹ بِن نہیں بنانا، جو ہر طرح کے کُوڑے کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے، یاد رکھو! وقت پَلٹ کر نہیں آتا، لہذا تم وقت کو ٹکڑوں میں بانٹ لو اور فجر ، مغرب کے بعد اور تہجّد کا وقت مطالعہ کے لئےخاص کر لو تمہارا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، سردی ہو یا گرمی، بارش ہو یا دُھوپ تمہیں ہرحال میں اپنا مطالعہ جاری رکھنا چاہئے۔

یاد رکھو!سبق ایک حرف ہو لیکن تکرار ہزار بار ہونی چاہئے، حامد نے اِن سب باتوں پر بابا جان کا شکریہ ادا کیا، سال کے بعد پھر سکول سے کال آئی، ملک بھر میں اَوّل پوزیشن آنے پر و زیرِ تعلیم نے آپ کو کھانے پر مَدعُو کیا ہے۔