علم و مطالعہ  کا صحیح طریقہ کار ایسی خُدائی نعمت ہے، جو کم ہی خُوش نصیبوں کو ملتی ہے، یہ طریقہ کار اِنسان کو ذوقِ مطالعہ پر آمادہ کرتا ہے، وہ اس طرح اپنے علم میں روز بروز اضافہ کرتا رہتا ہے اور نِت نئے جَوا ہرکاروں سے اپنے دامنِ ظرف کو بھرتا رہتا ہے۔

پیارے دوستو! ہم بہت خوش نصیب ہیں، ہمارے پاس پڑھنے کے لئے کتابیں ہیں، ورنہ دنیا میں وہ لوگ بھی ہیں، جو تَرستے ہیں، ان کے پاس پڑھنے کی کتابیں نہیں ہیں، اب مطالعہ کے دُرست طریقہ کار کے متعلق چند باتیں پیشِ خدمت ہیں، ممکن ہے کہ کسی بندے کی عِلمی ترقی کا ذریعہ بن جائیں۔

پہلی بات:

وقت اور جگہ کا تعین:کتاب ہاتھ میں لے کر بالکل یکسوئی کے ساتھ ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے، جہاں کسی کی دَخَل اندازی کا اندیشہ نہ ہو، کتاب کے ساتھ آپ کی داہنی جانب 1 عدد کاغذ اور قلم ہو تا کہ مُفید باتیں نوٹ کر لیں، حدیثِ پاک کا مفہوم ہے" علم کو لکھ کر قید کر لو۔"

جگہ کے تعین کے ساتھ وقت کا تعین ضروری ہے،کیونکہ مطالعے کے لئے ٹائم ٹیبل بنانے اور وقت خاص کرتے وقت کمی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے،مقولہ ہے:" وقت کی دُرست تقسیم کاری ، وقت کو وُسعت دیتی ہے۔"(مطالعہ کیا کیوں کیسے، ص 50)

دوسری بات:

کمیت کے بجائے کیفیت پر نظر رکھنا :کمیت کے بجائے کیفیت پر نظر رکھی جائے، یعنی اَہم یہ نہیں کہ کتنا پڑھا جائے ، بلکہ اَہم یہ ہےکہ کیا اور کِس طرح پڑھا جائے، مثلاً ہم پوری کتاب بِنا سمجھے جلدی جلدی ایک گھنٹے میں پڑھ سکتے ہیں اور دُرست انداز پر اس کے مفاہم و مطالب کو سمجھ کر تین گھنٹے میں پڑھ سکتے ہیں، تو دوسری صُورت کو اِختیار کیا جائے، اس طرح نہ صرف مطالعہ اچھا ہوگا، بلکہ اس کتاب میں بیان کردہ باتیں ہمارے ذہن میں بیٹھ جائیں گی۔

تیسری بات:

مطالعہ میں فکر کا مثبت ہونا:مطالعہ کے لئے ضروری ہے کہ ایسی مَثبت سوچ رکھتے ہوئے مطالعہ کرے تا کہ اپنے علم کو نئی باتوں، نئے افکار سے مُزیّن کرے۔( مطالعہ کیا کیوں اور کیسے، ص59)

چوتھی بات:

مطالعہ میں تکرار اور تسلسل کا ہونا:آج کل ایک تعداد کمزور حافظہ کی شکایت کرتی ہے، ایسی صورت میں کتاب کا ایک بار مطالعہ کرنے سے وہ یاد نہیں ہوتی بلکہ اس کو بار بار پڑھنے سے نئے فوائد و نِکات سامنے آتے ہیں، اِمام شافعی کے شاگرد اِمام مزنی نے ایک کتاب کا 50 بار مطالعہ کیا اور کہتے رہے کہ ہر بار نئے فوائدو نکات حاصل ہوئے۔(کچھ دیر طلبہ کے ساتھ، 131)

پانچویں بات:

اونچا ہدف رکھیں:اَکابر اہلِ علم کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور ان تک پہنچنے کی دُھن میں لگا رہے، یاد رہے! اُونچا حدف ہی زندگی کی علامت ہے ۔

"خدا کرے کہ دل میں اُتر جائے میری بات"

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ دینی کُتب کا دُرست طریقہ کار کے مطابق مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین