مصیبتیں آنے کے اسباب از بنت رضاء الحق باجوہ، فیضانِ
ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
اہلِ علم اور دین داروں کا کہنا یہ ہے کہ مصیبتیں
خدا کے حکم سے بہت سی حکمتوں کے پیشِ نظر آتی ہیں، ایک حکمت مصیبتوں میں لوگوں کا
امتحان مقصود ہوتا ہے کہ صبر کرتے ہیں یا بے صبری؟ ایک حکمت نیک بندوں کے کردار و
عمل کو سامنے لانا ہوتا ہے تاکہ عام لوگ ان کے حسنِ عمل کی پیروی کریں۔ایک حکمت
نیک بندوں کے مراتب و درجات کی بلندی ہوتی ہے۔ایک حکمت گناہگاروں کو تنبیہ اور
نصیحت ہوتی ہے کہ وہ گناہوں سے باز آ جائیں اور زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھائیں۔ایک
حکمت گناہوں کی سزا ہے اور ان گناہوں میں سب سے بڑھ کر بے حیائی،بدکاری اور بے
شرمی ہے۔یہ چند ایک حکمتوں کا بیان ہے جس پر مزید بھی بہت سے اسباب کا اضافہ کیا
جا سکتا ہے۔بعض اوقات مصائب وآلام کے پیچھے ہماری بداعمالیاں بھی کارفرماہوتی ہیں۔چنانچہ
مصیبتوں کا سبب ہمارے کرتوت ہیں:
امیرُالمومنین حضرت على المرتضى رضی اللہ عنہ نے فرمایا :مىں تم
كواللہ پاک كى كتاب مىں سب سے افضل آىت كى خبر دیتا ہوں جو رسو لُ اللہ ﷺ نے بتائی ہے :وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ
وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)(پ25،الشوریٰ:30)ترجمۂ
کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ
تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ
سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔
(حُضُور اکرم ، نُورِمجسم ﷺ نے ہمارے سامنے یہ آیت تلاوت کرنے کے بعد ارشادفرمایا:)اے علی!میں
اِس كى تفسىر بیان کرتا ہوں ،تمہیں دنیا میں جو بیمارى ، سزا یا کوئی بَلا پہنچتی
ہےوہ اس سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا ، تو اللہ پاک اس سے
بہت زیادہ كریم ہےکہ آخرت مىں دوبارہ سزا
دے۔اللہ پاک نے جب دنیا مىں تم سے گناہ معاف فرما دیئے تو وہ اس سے بہت زىادہ حلیم
ہے كہ معاف كرنے كے بعد سزا دے۔
(مسند امام احمد ،1 /185 ، حدیث :649)
جو كچھ ہیں وہ سب اپنے ہى ہاتھوں كے
ہیں كرتوت
شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت کا گلہ ہے
حدیثِ مبارک:حضرت ابو
موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا: بندے کو جو
چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ
پاک معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ
ہوتے ہیں۔پھر رسولُ اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ
یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)(پ25،الشوریٰ:30)(ترجمۂ
کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ
تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ
سے ہے اور بہت کچھ تو(اللہ)معاف فرما دیتا ہے۔)(ترمذی،5/169،
حدیث:3263)
(3)حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے،رسولِ
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:لکڑی کی خراش لگنا،قدم کا ٹھوکر کھانا اور رگ کا پھڑکنا
کسی گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور جو گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ
وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)(پ25،الشوریٰ:30)(ترجمۂ
کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ
تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ
سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔)۔(کنزالعمال، 2/304، الجزء الثالث، حدیث:8666)
دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثراُن کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں ،اُن تکلیفوں کو اللہ پاک اُن کے گناہوں کا کفارہ کردیتا
ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت
ہے،تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے
زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا
اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)
صوفیاء فرماتے ہیں:رنج و غم میں درود شریف زیادہ
پڑھو کیونکہ اکثر رنج و غم گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ درود شریف کی برکت سے گناہ
مٹتے ہیں جب گناہ گئے تو ان کا سامان یعنی رنج و غم بھی گیا۔
( مراۃ المناجیح،2/ 429)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم ﷺ
نے ارشاد فرمایا:مومن کی بیماری ا س کے گناہوں کے لئے کفارہ ہوتی ہے۔( شعب الایمان،7/158
، حدیث:9835)
اللہ پاک ہمیں اپنی اطاعت میں مصروف رہنے اور
گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،مشکلات
اور مَصائب سے ہماری حفاظت فرمائے اور آنے والی مشکلات پر صبر کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔اٰمین