ہر وہ نا پسندیدہ چیز جو انسان کو آزمائش میں ڈالے وہ مصیبت ہے۔

(لمعات التنقیح،4/19،تحت الحدیث:1536)

مصیبت سے اولاد،بیماریاں اور مال کی صورت میں پہنچنے والی آزمائش بھی مراد ہے یعنی بندے کو کبھی بیماری،کبھی اولاد اور کبھی مال کے ذریعے آزمایا جاتا ہے،یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے اور بندہ اللہ پاک کی بارگاہ میں گناہوں سے پاک ہو کر حاضری دیتا ہے۔(الکوثر الجاری،9/231،تحت الحدیث:5645)

مصیبتوں کے آنے کی بہت سی حکمتیں ہوتی ہیں مثلاً

بعض اوقات مصیبتوں کے آنے کا سبب گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے جیسا کہ حدیثِ مبارک کا خلاصہ ہے کہ مومن کو آزمائش میں ڈالا جاتا ہے تاکہ یہ آزمائش اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے۔(شرح بخاری لابن بطال،9/372)ایک حدیثِ پاک کا خلاصہ ہے کہ جان و مال،مصیبت و پریشانی سے محفوظ ہوں تو بسا اوقات غفلت کا مرض بھی لگ جاتا ہے ،ایسی صورت میں آنے والی مصیبت نفس کے لئے لگام کا کام دیتی ہے جس سے بندہ اللہ پاک کی باگاہ کی طرف لوٹ آتا ہے اور ثواب کا حق دار پاتا ہے۔(کشف المشکل من احادیث الصحیحین،3/529،تحت الحدیث:2039 ماخوذاً)اس سے معلوم ہوا کہ کبھی مصیبت کا سبب یہ ہوتا ہے کہ بندہ غفلت کو چھوڑ کر اللہ پاک کی بارگاہ کی طرف رجوع کرے۔

اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا :وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

ایک حکمت یہ ہے کہ مصیبتوں میں لوگوں کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ صبر کرتے ہیں یا بے صبری؟

ایک حکمت نیک بندوں کے کردار و عمل کو سامنے لانا ہوتا ہے تاکہ عام لوگ ان کے حسنِ عمل کی پیروی کریں۔

ایک حکمت نیک بندوں کے مراتب و درجات کی بلندی ہوتی ہے۔

ایک حکمت گناہگاروں کو تنبیہ اور نصیحت ہوتی ہے کہ وہ گناہوں سے باز آ جائیں اور زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھائیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم پر اپنے ہی اعمال کی وجہ سے جو مصیبتیں آتی ہیں ان میں بے صبری اور شکوہ و شکایت کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ انہیں اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھتے ہوئے صبر و شکر سے کام لیں۔

ترغیب کے لئے چند احادیث ملاحظہ ہوں:

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پرنور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔( ترمذی،5/129 ،حدیث:3263)

ارشاد فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

اللہ پاک ہمیں نیک اعمال پر عمل اور مصیبتوں پر صبر و شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین