دنیا کی زندگی عارضی ہے،اس کے تمام معاملات و مشکلات
عارضی ہیں،اس دنیا کی حیثیت ایک سفر کی سی ہے۔صحابہ کرام کی زندگیاں صبر کی مثالوں
سے بھری پڑی ہیں۔ان کے ہاں تو یہ عالم تھا کہ دورانِ جہاد جسم کا کوئی حصہ کٹ جاتا
تو فخر کرتے کہ ہمارا عضو اللہ پاک کے پاس ہے جو بہتر اجر دینے والا ہے۔پیارے نبی
ﷺ نے اپنی زندگی میں بے شمار تکلیفیں اور آزمائشیں دیکھیں لیکن صبر کا دامن ہاتھ
سے نہ چھوڑا ،اونٹ کی اوجھڑی اُن پر رکھ دی گئی، پتھر برسائے گئے لیکن آپ نے صبر
کیا اور اپنی اُمت کی بہتری کے لئے دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہے۔
تمام امتوں میں حکمتوں اور مصلحتوں کے پیشِ نظر
اللہ پاک کا یہ طریقہ جاری رہا ہے کہ وہ ایمان والوں کو آزمائشوں میں مبتلا فرماتا
ہے۔یادر ہے!اس امت سے پہلے لوگوں پر انتہائی سخت آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں لیکن
پہلے کے لوگوں نے ان مصیبتوں اور آزمائشوں پر صبر کیا اور اپنے دین پر استقامت کے
ساتھ قائم رہے۔ یوں ہی ہم پربھی آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں گی تو ہمیں بھی چاہئے
کہ پچھلے لوگوں کی طرح صبر و ہمت سے کام لیں اور اپنے دین کے احکامات پر مضبوطی سے
عمل کرتی رہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اَمْ
حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ
خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْؕ-مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا
حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ
اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ(۲۱۴)
(پ2،البقرۃ:214)ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پرپہلے
لوگوں جیسی حالت نہ آئی۔ انہیں سختی اور شدت پہنچی اور انہیں زور سے ہلا ڈالا گیا یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہہ
اُٹھے: الله کی مدد کب آئے گی؟ سن لو! بیشک الله کی مدد قریب ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:وَ كَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَۙ-مَعَهٗ رِبِّیُّوْنَ
كَثِیْرٌۚ-فَمَا وَ هَنُوْا لِمَاۤ اَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ مَا
ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَكَانُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ(۱۴۶)(پ4،الِ
عمرٰن:146)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا، ان کے ساتھ بہت سے
اللہ والے تھے تو انہوں نے اللہ کی راہ میں پہنچنے والی تکلیفوں کی وجہ سے نہ تو
ہمت ہاری اور نہ کمزور ی دکھائی اور نہ (دوسروں سے) دبے اور اللہ صبر کرنے والوں
سے محبت فرماتا ہے۔
بخاری شریف میں حضرت خَبّاب بن ارت رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمخانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر
مبارک سے تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما تھے ،ہم نے حضور اقدس ﷺ سے عرض کی:یارسول
اللہ ﷺ!ہمارے لیے کیوں دعا نہیں فرماتے؟ہماری کیوں مدد نہیں کرتے؟ارشاد فرمایا: تم
سے پہلے لوگ گرفتار کیے جاتے تھے، زمین میں گڑھا کھود کر اس میں دبائے جاتے
تھے،آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کرڈالے جاتے تھے اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت
نوچے جاتے تھے لیکن ان میں سے کوئی مصیبت انہیں ان کے دین سے روک نہ سکتی
تھی۔(بخاری،2/503،حدیث:3612)
مصیبت میں صبر:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس بندے کو مصیبت پہنچے پھر
وہ یہ دعا پڑھ لے: اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
اَللّٰھُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِنْھَا ہم اللہ پاک کے
مال ہیں اور ہم کو اسی کی طر ف لوٹنا ہے۔اے اللہ پاک!مجھے میری مصیبت میں اجرعطا
فرمااور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا فرما۔
تو اﷲ پاک اسے اس مصیبت کا ثواب عطا فرماتا ہے اور
اسے اس سے بہتر بدلہ عطا فرماتاہے۔
(مسلم ،ص 356 ،حدیث
:2127)
مصیبت چھپانے کی فضیلت:
فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے :جس کے مال یا جان میں مصیبت
آئی پھر اُس نے اسے پوشیدہ رکھا اور لوگوں کو اس کی شکایت نہ کی تو اللہ پاک پر حق
ہے کہ اس کی مغفرت فرمادے۔(معجم اوسط،1/ 214 ،حدیث:737)
اللہ پاک ہمیں عافیت عطا فرمائے اور اگر مصائب و
آلام آئیں تو ان پر صبر کرنے اور دینِ اسلام کے احکامات پر مضبوطی سے عمل پیرا
ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین