جس طرح خوشیاں اللہ پاک کی طرف سے ہوتی ہیں اس طرح
مصیبتیں بھی اللہ پاک کی طرف سے آتی ہیں۔
جس طرح ہم خوشی کو انجوائے کرتی ہیں یعنی خوشی کا اظہار کرتی ہیں اس طرح
ہمیں مصیبتوں پر صبر و شکر سے کام لینا چاہیے اور اللہ پاک کے نزدیک ہو جانا چاہیے
یہی امید و یقین کے ساتھ صبرِ اور دعائیں کرتی رہیں۔ جس مالک نے مصیبتوں میں ڈالا ہے وہ نکال بھی دے گا۔مصیبتیں آنے
کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔یاتو بندے کے گناہوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے آتی ہیں یا
پھر اللہ پاک اس بندے کو بلندی عطا فرمانے کے لیے مصیبت میں ڈالتا ہے تاکہ بندہ
اللہ پاک کا محبوب ہو جائے۔وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ
بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ
الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵) (پ2،البقرۃ:155
)ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔
ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یاد
کرنا چاہیے کہ انہوں نے کتنی مصیبتیں برداشت کیں اور صبرِ و دعا کا دامن نہیں
چھوڑا۔
مصیبتیں آنے کے اسبابِ پر پانچ فرمانِ
مصطفےٰﷺ :
(1)مومن کا معاملہ کس قدر اچھا ہے کہ اس کا ہر
معاملہ بھلائی پر مشتمل ہے اور یہ بات صرف مومن ہی کے لئے ہے۔ اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرتا
ہے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے اور اگر اسے کوئی دکھ یا تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا
ہے اور یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے۔(مسلم، ص 1598،
حدیث:2999)
(2)اپنے بھائی کی شماتت نہ کر یعنی اس کی مصیبت پر
اظہار مسرت نہ کر کہ اﷲپاک اس پر رحم کرے گا اور تجھے اس میں مبتلا کردے گا۔(ترمذی،4/227، حدیث: 2514)
(3)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت
ہے،تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ
کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی
بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)
(4)حدیثِ قدسی میں اللہ پاک فرماتا ہے:جب میں اپنے بندہ مومن
کی دنیا کی کوئی پیاری چیز لے لوں پھر وہ صبر کرے تو میرے پاس اس کی جزا جنت کے
سوا کچھ نہیں۔ (بخاری ، 4/ 225 ، حدیث :6424)
(5)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی ِکریم
ﷺ کا فرمان نقل کرتے ہیں:مومن کو
کانٹاچبھےبلکہ اس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچے تو اللہ پاک اس کے گناہ ایسے جھاڑ
دیتا ہے جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔
( بخاری،4/5 ،حدیث:5648بتغیر قلیل)
حدیثِ مبارک سے ہمیں معلوم ہوا کہ جب اللہ پاک کسی
بندے کو مصیبتوں میں مبتلا کرتاہے تو اس کے بدلے بہت سارا اجر اور بلندیاں عطا
کرتاہے۔اس لیے جب بھی کسی پر مصیبت
آئے ہر کسی کو بتانے کے بجائے اللہ پاک سے
عافیت کی دعا اور صبر مانگے،کیونکہ شور اور
ہائے ہائے کرنے یا لوگوں کو بتانے سے
مصیبت ختم نہیں ہو گی لیکن اس کے بدلے ملنے والا اجر ضائع ہو جائے گا ۔ا للہ پاک
ہمیں کتنی ہی بڑی مصیبت کیوں نہ آجائے ہمیشہ صبرِ وشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اور اس کے بدلے بہترین اجراور دنیا و آخرت میں بھلائیاں نصیب کرے۔ آمین