
نصیر آباد ڈویژن کے ڈسٹرکٹ ڈیرہ اللہ یار میں واقع دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ
مدینہ میں ٹیچرز میٹ اپ منعقد کیا گیا جس میں شہر بھر سے ٹیچرز حضرات سمیت دیگر
عاشقانِ رسول کی شرکت ہوئی۔
ٹیچرز میٹ اپ کے دوران مبلغِ دعوتِ اسلامی راؤ
جنید عطاری نے دعوتِ اسلامی کے شعبہ جات کا تعارف کرواتے ہوئے حاضرین کو دعوتِ
اسلامی کے نئے پلیٹ فارم ”Islam
Forever“ کے بارے
میں بتایا اور ہاتھوں ہاتھ ڈاؤن لوڈ کروایا۔
اس کے علاوہ مبلغِ دعوتِ اسلامی نے دعوتِ اسلامی
کے دینی کاموں کے حوالے سے حاضرین کی ذہن سازی کی جس پر کم و بیش 15 ٹیچرز نے نماز کورس کرنے کی اچھی اچھی
نیتیں کیں۔(رپورٹ: سہیل احمد عطاری مدنی شعبہ تعلیم نصیر آباد ڈویژن
ڈیرہ اللہ یار ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
.jpg)
میمن سوسائٹی، حیدرآباد میں گزشتہ روز دعوتِ
اسلامی کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے تحت ٹیچرز میٹ اپ اور ٹریننگ سیشن کا انعقاد کیا
گیا جس میں ٹیچرز، اسٹوڈنٹس، اور پرنسپل سمیت اسکول اونر نے شرکت کی۔
ٹریننگ سیشن کی ابتدا میں مبلغِ دعوتِ اسلامی نے
اسٹوڈنٹس کے درمیان بیان کیااور انہیں
دعوتِ اسلامی کے مختلف ڈیپارٹمنٹ کا تعارف کرواتے ہوئے انہیں نمازوں کا پابند
بننے کی ترغیب دلائی۔
اس کے علاوہ ٹیچرز میٹ اپ میں ٹریننگ اینڈ ڈویلپمنٹ
ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی کے HOD سر فرید عطاری نے وہاں موجود اسلامی بھائیوں کی مختلف امور پر ذہن سازی کی
اور کہا : سب سے پہلے آپ اپنی ذات کے متعلق سوچیں کہ میں کیا کر رہا ہوں اور مجھے اللہ پاک نے کیوں پیدا کیا ہے؟ جس پر انہوں نے اچھی
اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ: سہیل احمد عطاری مدنی
شعبہ تعلیم نصیر آباد ڈویژن ڈیرہ اللہ یار ، کانٹینٹ:غیاث
الدین عطاری)
کلیم
اللہ چشتی عطاری ( درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ سادھو کی لاہور ، پاکستان)

دین اسلام وہ واحد دین ہے جس میں زندوں
کے جملہ حقوق بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مرنے والے کے حقوق بھی بڑی تفصیل و اہمیت سے
بیان کیے گئے ہیں اس سے ایک انسان کی عزت واحترام کا پہلو اجاگر ہوتا ہے یہ حقوق
انسانی وقار، اخلاقیات، اور روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں اور ان کو ادا کرنے سے
بیشمار دینی و دنیاوی فوائد حاصل ہوتے ہیں آئیے ان میں سے چند حقوق کا مطالعہ کرتے
ہیں ۔
(1)پردہ پوشی: میت کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے عیوب کو چھپایا جائے جس طرح کہ
حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میت کو غسل دیا اور اس کی
پردہ پوشی کی تو اللہ عزوجل 40 مرتبہ اس کے گناہ کو بخشے گا ۔ (مستدرک حاکم،کتاب
الجنائز،باب فضیلت تغسیل المیت وتکفینہ وحفر قبرہ677/1، حدیث:1347)
(2)جنازہ میں جلدی :
حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنازہ
جلدی لے جاؤ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے بھلائی کی طرف بڑھا رہے ہو اور اگر اس کے
علاوہ ہے تو تم برائی کو اپنے گردنوں سے اتار رہے ہو ۔ (بخاری،کتاب الجنائز،باب
السر عہ بالجنازۃ،444/1،حدیث: 1315بتغییرقلیل)
(3)قرض کی ادائیگی :
آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی روح قرض کی
وجہ سے معلق رہتی ہے یہاں تک کہ اس کی طرف سے قرض ادا کر دیا جائے ۔ (ترمذی،کتاب
الجنائز،باب ما جاءعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔الخ،341/2، حدیث:1080)
(4)ایصال ثواب:حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم سے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم! ہم اپنے مُردوں کے
لیے دعا کرتے ہیں ان کی طرف سے صدقہ کرتے ہیں اور حج کرتے ہیں تو کیا انہیں اس کا
ثواب پہنچتا ہے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا :بے شک ثواب ان تک پہنچتا
ہے اور وہ اس ثواب سے اس طرح خوش ہوتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی شخص تحفہ ملنے پر
خوش ہوتا ہے ۔ (عمده القارى، كتاب الجنائز،باب موت الفجاة البغدتہ،305/6, تحت
الحديث: 1388)
(5)کفن: حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے میت کو کفن پہنایا اللہ
تعالی اسے جنت کے سندس و استبرق (باریک اور موٹے ریشم )کا لباس پہنائےگا۔ (المستدرك
علی الصحیحین للحاکم، کتاب الجنائز: 505/1، رقم الحدیث:1307، ط: دارالکتب العلمیہ
بیروت)
ارسلان حسن عطاری (درجہ رابعہ
جامعۃالمدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)

(1)
میت کی آنکھیں بند کرنا : اگر میت
کی آنکھیں کھلی رہ جائیں تو وہاں موجود افراد کوچاہیے کہ اس کی آنکھیں بند کردیں
اور دیگر اَعضاء بھی سیدھے کر دیں ۔ آنکھیں بند کرنے والے کو چاہیے کہ وہ میت کی
مغفرت ،قبر میں روشنی اور وُسعت کی دعاکرے ۔ ( فیضان ریاض الصالحین جلد:6 ص 567)
(2)
جنازے میں شرکت کرنا : نماز جنازہ
میں کثیر لوگوں کی شرکت شرعًا بہت محبوب ہے کہ اس سے میت کے گناہ معاف ہوتے ہیں
اور درجات بلند ہوتے ہیں.( فیضانِ ریاض الصالحین جلد 6 ص 604) حدیث پاک میں ہے ۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوْتُ فَيَقُوْمُ عَلَى
جَنَازَتِهِ اَرْبَعُوْنَ رَجُلًا لَا يُشْرِكُوْنَ بِاللهِ شَيْئًا اِلَّا
شَفَّعَهُمُ اللهُ فِيْهِ حضرت
سَیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے
رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو فرماتے ہوئے
سنا ہے کہ جس مرنے والے مسلمان کے جنازے میں چالیس ایسے افراد شریک ہوں جو اللّٰہ
عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں تو اللّٰہ تعالیٰ اس مرنے والے
کے حق میں ان لوگوں کی شفاعت قبول فرماتا ہے۔ ( مسلم ، کتاب الجنائز ، ص 368 ،
حدیث: 2199)
(3)
تدفین کے بعد قبر پر رکنا : عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ
قَالَ:اِذَادَفَنْتُمُوْنِی فَاَقِيْمُوْا حَوْلَ قَبْرِيْ قَدْرَ مَا تُنْحَرُ
جَزُوْرٌوَ يُقَسَّمُ لَحْمُهَا حَتّٰى اَسْتَاْنِسَ بِكُمْ وَاَعْلَمَ مَاذَا
اُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ ربِّي ْ حضرتِ
سَیِّدُناعَمرو بن عاص رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ انہوں نے
فرمایا:”جب تم لوگ مجھے دَفْن کردو تو میری قبر کے پاس اتنی دیر ٹھہرے رہنا جتنی
دیر ایک اونٹ کو نحر کرنے اور اُس کا گوشت تقسیم کرنے میں لگتی ہے تاکہ میں تم
لوگوں سے اُنسیت حاصل کرسکوں اور یہ جان سکوں کہ میں نے اپنے رب کے بھیجے ہوئے
فرشتوں کو کیا جواب دینا ہے ۔ ( مسلم ، کتاب الایمان ، ص 74 حدیث : 122)
(4)
میت کا قرض ادا کرنا : کوئی مسلمان
مقروض فوت ہوجائے تو عزیزوں کو چا ہیے کہ فوراً اُس کا قرضہ ادا کردیں تاکہ مرحوم
کے لئے قبرو حشر کے معاملات میں آسانی ہو۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں موت سے قبل
اپنا قرض اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (فیضان ریاض الصالحین جلد:6 ص 632)
(5)
تدفین میں جلدی کرنا : میت کو
حَتَّی الامکان جلدی دفن کر دینا چاہیے کہ بلا ضرورت تاخیر کرنا سخت نا جائز ہے کہ
اس میں میت کے پھولنے پھٹنے اور اسکی بے حرمتی کا اندیشہ ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ
ہمیں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنتوں پرعمل
کرتے ہوئے تجہیزوتکفین اور تدفین میں جلدی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین( فیضانِ
ریاض الصالحین جلد 6 ص 633)
(6)
میت کی طرف سے صدقہ کرنا: حضرت انس
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !ہم اپنے مُردوں کے لیے دعا کرتے ہیں، اُن کی
طرف سے صَدَقہ کرتے ہیں اور حج کرتے ہیں تو کیا اُنہیں اِس کا ثواب پہنچتا ہے؟ آپ
صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ”بے شک ثواب اُن تک
پہنچتا ہے اور وہ اس ثواب سے اِس طرح خوش ہوتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی شخص تحفہ
ملنے پر خوش ہوتا ۔ ( عمدۃالقاری ، کتاب الجنائز 305/6 تحت الحدیث 1388)
جنید یونس (درجہ سابعہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)

اسلامی تعلیمات میں میت کے حقوق کو بہت
اہمیت دی گئی ہے۔ مرنے کے بعد بھی انسان کے کچھ حقوق ہوتے ہیں جنہیں ادا کرنا زندہ
لوگوں پر لازم ہے۔ ان حقوق کی ادائیگی اسلامی معاشرت میں میت کی عزت و تکریم کو
برقرار رکھتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔
(1) غسل دینا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: اغْسِلُوهُ بماءٍ
وسِدْرٍ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1253)ترجمہ:اسے پانی اور
بیری کے پتوں سے غسل دو۔
یہ حدیث میت کو غسل دینے کے عمل کی
اہمیت کو واضح کرتی ہے۔
(2) کفن دینا: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: إِذَا
كَفَّنَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْيُحْسِنْ (صحیح مسلم، حدیث
نمبر: 943)ترجمہ:جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو بہتر کفن دے۔
اس حدیث سے میت کے کفن کو اچھی حالت دینے
کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔
(3) نماز پڑھنا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: مَنْ شَهِدَ
الجِنَازَةَ حَتَّى يُصَلّیَ عَلَيْهَا، فَلَهُ قِيرَاطٌ (صحیح
بخاری، حدیث نمبر: 1325) ترجمہ:جو شخص جنازہ میں شرکت کرے اور نماز جنازہ پڑھے،
اسے ایک قیراط کا اجر ملتا ہے۔
یہ حدیث جنازہ کی نماز کے ثواب کو بیان
کرتی ہے۔
(4) دفن کرنا: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: احْفِرُوا
وَأَعْمِقُوا وَأَحْسِنُوا (سنن الكبری، حدیث: 2148) ترجمہ: گڑھا
کھودو، اسے گہرا کرو اور اچھے طریقے سے دفن کرو۔
یہ حدیث دفن کے آداب کی رہنمائی فراہم
کرتی ہے۔
(5) دعا کرنا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: اسْتَغْفِرُوا
لأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ التَّثْبِيتَ (سنن ابو داؤد، حدیث
نمبر: 3221)ترجمہ: اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی
دعا کرو۔
یہ حدیث میت کے لیے دعا کرنے کی اہمیت
کو بیان کرتی ہے۔
فیضان مدینہ اسلامک سینٹر ڈانڈینونگ نارتھ، میلبرن
آسٹریلیا میں یوتھ میٹ اپ کا سلسلہ
.jpg)
میلبرن آسٹریلیا کے مضافات میں واقع Dandenong North میں قائم دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ اسلامک سینٹر
میں ایک نوجوانوں کے درمیان ایک میٹ اپ کا
انعقاد کیا گیا جس میں ڈاکٹر محمد قاسم عطاری نے 'Building Your Spiritual Power' کے عنوان سے نواجوانوں کی ٹریننگ کی۔
انہوں نے نوجوانوں کو رمضان المبارک کے بابرکت
مہینے کی تیاری کرتے ہوتے اِ س ماہ میں
خوب نیکیاں کرتے رہنے، نمازوں کا اہتمام کرنے، دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں
شرکت کرنے سمیت دیگر اہم موضوعات کی طرف توجہ دلائی۔
محمد ایاز جمال درجہ ثانیہ
جامعۃُ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور ، پاکستان)

اسلام نے مرنے
والے کے حقوق بھی متعین کیے ہیں۔یہ مسلمان کی عظمت اور بزرگی کی وجہ سے ہے،اسلام
میں نہ صرف ایک زندہ مسلمان کی عظمت ہے بلکہ جب اس کی روح بدن سے پرواز کرجاتی
ہے،اس کے بعد بھی اسلام نے اس کی عظمت اور بزرگی کو تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ اسلام نے
ضروری قرار دیا کہ مرنے کے بعد میت کو اچھے طریقے سے غسل دیا جائے،اس کی تطہیر
وتنظیف کی جائے،اس کو خوشبو وغیرہ لگائی جائے۔ اس کے غسل وکفن کا اچھے طریقے سے
اہتمام کیا جائے جس میں اس کی ستر پوشی کا پورا پورا خیال کیا جائے۔ اس پر نماز
جنازہ پڑھی جائے اور اس کے لیے دعا مغفرت کی جائے۔پھر اس کو نہایت وقار اور اعزاز
واکرام کے ساتھ قبر میں دفن کیا جائے۔یہ سب حقوق ایک مسلمان کے اس دنیا سے جانے کے
بعد کے ہیں۔ چنانچہ ایک مسلمان کے مرنے کے بعد اس کے دوست احباب اور رشتہ داروں
اور وارثوں پر کچھ حقوق لازم ہیں۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ موت کیا ہے؟موت ایک ایسی صفت
ہے جو صفت حیات کے تغیر پر بدن کو عارض ہوتی ہے۔
(1)
کلمہ طیبہ کی تلقین: آدمی جب نزع
کی حالت میں ہوتو اسے کلمہ طیبہ یعنی لا الٰه الا اللہ کی تلقین کرنا چاہیے تاکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہو۔چنانچہ سیدنا ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مرنے والوں کو لا
الٰہ الا اللہ کی تلقین کیاکرو۔ (مسلم،رقم:916،
2/631، ترمذی:3/306، ابوداؤد:3/190، رقم:3117،نسائی:4/5)
حافظ ابن ابی الدنیا نے سیدنا عثمان بن عفان رضی
اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم
مرنے والے کے پاس جاؤ تو اسے لا الٰه الا اللہ کی تلقین کرو،کیونکہ جس بندے کا
خاتمہ اس پر ہوگیا اس کے لیے یہ جنت کا زاد راہ ہوگا۔
(2)
میت کا قرض ادا کرنا: یہ بھی سنت
ہے کہ مرنے والے کا قرض جتنی جلدی ہوسکے ادا کیا جائے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کی
روح اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کو ادا نہ کیا جائے۔ (رواہ
الترمذی، رقم:1/502)
یہ اس صورت
میں ہے جب مرنے والا مال چھوڑ کر مرا ہوتو اس کی تجہیز و تکفین کے بعد اس کے ترکہ سے سب سے پہلے اس کا قرض ادا کیا جائے۔اگر
کوئی شخص کسی سے قرض لیتا ہے، اور قرض ادا کرنے کی نیت ہے اور کوشش بھی کرتا ہے کہ
قرض جلد از جلد ادا کردیا جائے،پھر اگر وہ قرض ادا کرنے سے قبل مرگیا تو حضور صلی
اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : میں اس کا ولی اور ذمہ دار ہوں۔ (مسند احمد:6/74،
مسند ابی یعلی، رقم:4819، زوائد المسند، رقم:986، مجمع الزوائد:4/168)
(3)
غسل المیت: میت کو غسل دینا فرض
کفایہ ہے،اور جو شخص میت کو غسل دیتا ہے اس کے لیے حدیث میں اجر عظیم بتایا گیا
ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مومن کو غسل
دیتا ہے اور اس کے عیوب کو چھپاتا ہے،حق تعالیٰ شانہ اس کی چالیس مرتبہ مغفرت
فرماتا ہے اور جو اس کو کفن دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو سندس اور استبرق یعنی دیباج
وکمخواب کا لباس پہنائے گا۔ (رواہ الحاکم:1/354، 362، تلخیص احکام الجنائز، ص31)
(4)
میت کو کفن دینا: میت کو کفن دینا
فرض کفایہ ہے۔مَردوں کے لیے مسنون تین کپڑےہیں۔ازار، قمیض اور لفافہ، اور عورت کے
لیے مسنون چار کپڑے ہیں:قمیض، ازار، لفافہ اور سینہ بند۔ (بخاری:1/428،
مسلم:2/649) میت کو کفن اچھا دینا چاہیے،اور وہ سفید رنگ کا ہو،لیکن کفن زیادہ
قیمتی نہ ہو،مگر صاف ستھرا اور بدن کو ڈھانپنے والا ہو۔
چنانچہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے
تو اپنی استطاعت کے مطابق اچھا کفن دے۔ (مسلم، 2/651، رقم:943، ابو
داؤد:3/198،رقم:3150،ترمذی،رقم:995،ابن ماجہ:1/469، مسنداحمد:1/146 ومسند الفردوس
بخوہ: 1/134، رقم:316)
(5)
میت پر نماز جنازہ: میت پر نماز
جنازہ فرض کفایہ ہےاور اس میں میت اور نماز جنازہ پڑھنے والے دونوں کے لیے اجر
عظیم ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نماز جنازہ پڑھنے والے کی میت کے بارے میں شفاعت قبول
فرماتا ہے،اور نماز جنازہ پڑھنے والے کو اجر عظیم عطا فرماتا ہے ۔ چنانچہ سرکار
دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی مومن انتقال کرجاتا ہے اور
مومنوں کی تین صفیں اس کی نماز جنازہ پڑھتی ہیں تو اللہ تعالیٰ مرنے والے کی مغفرت
فرما دیتا ہے۔
چنانچہ راوی حدیث سیدنا مالک بن ہبیرہ رضی اللہ
عنہ اگر کسی کی نماز جنازہ پڑھتے اور لوگ کم ہوتے تو وہ ان کو(چھوٹی چھوٹی)تین
صفوں میں کھڑا کردیتے۔ (رواہ ابو داؤد، رقم:3166، ترمذی،رقم:1028،حاکم:1/362)
اللہ تعالٰی
سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں اچھی موت عطا فرمائے۔اور جو اس دنیا سے رخصت ہو گئے
ہیں ان کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔حضور نبی کریم صلی تعالی علیہ
وسلم کا پڑوسی بنائے۔یہ دعائیں ہم سب کے حق میں بھی قبول فرمائے۔
عبدالمنان
عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم، سادھوکی، لاہور)

جس طرح زندگی
میں لوگوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہوتے ہیں جیسے کہ اولاد پر ان کے والدین کے حقوق،
والدین کے اولاد پر حقوق، اسی طرح مرنے کے بعد بھی مُردوں کے حقوق زندوں پر ہوتے
ہیں جیسا کہ ان کے جنازے کو کندھا دینا، ان کا نمازِ جنازہ ادا کرنا، ان کے لئے
مغفرت کی دعا کرنا اور ان کیلئے صدقۂ جاریہ والے کام کرنا وغیرہ۔ میت کے چند مزید
حقوق تفصیل کے ساتھ ذکر کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے:
(1)اچھی
بات کہنا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم بیمار یا مَیِّت کے پاس آؤ تو اچھی بات بولو(یعنی
دُعا کرو) اس لئے کہ فرشتے تمہاری دُعاؤں پرآمین کہتے ہیں۔(فیضان ریاض الصالحین،
6/568)
(2)میت
کے لئے دعا کرنا: نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم میت پر نماز پڑھو تو اس کے لئے خلوص کے
ساتھ دعا کرو۔(فیضان ریاض الصالحین، 6/613)
(3)میت
کو کندھا دینا: حضور نبی رحمت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو جنازے کے ساتھ گیا اور اسے تین بارکندھا دیا
اس نے میت کا حق ادا کردیا جو اس پر تھا۔(مشکاۃ المصابیح، 1/319، حدیث:1670)
(4)میت
کے غسل و کفن اور دفن میں جلدی کرنا: غسل
و کفن اور دفن میں جلدی چاہئے کہ حدیث میں اس کی بہت تاکید آئی ہے۔(دیکھئے:
الجوھرۃ النیرۃ، ص 131)
(5)میت
کا نمازِ جنازہ پڑھنا: ہر مسلمان کی
نمازِ جنازہ پڑھی جائے اگرچہ وہ کیسا ہی گناہگار و مرتکبِ کبائر ہو۔(بہار شریعت،
1/827)
(6)میت
پر نوحہ نہ کرنا: آخری نبی حضرت
محمدِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نوحہ کرنے والی اور سننے والی پر
لعنت فرمائی۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/328، حدیث:1732)
(7)بال
نہ کاٹنا:میت کی داڑھی یا سر کے
بال میں کنگھا کرنا یا ناخن تراشنا یا کسی جگہ کے بال مونڈنا یا کترنا یا
اُکھاڑنا، ناجائز و مکروہِ تحریمی ہے بلکہ حکم یہ ہے کہ جس حالت پر ہے اُسی حالت
میں دفن کر دیں، ہاں اگر ناخن ٹوٹا ہو تو لے سکتے ہیں اور اگر ناخن یا بال تراش
لئے تو کفن میں رکھ دیں۔(تجہیز و تکفین کا طریقہ، ص91)
(8)پردہ
پوشی: میت کے حقوق میں سے ایک یہ
بھی ہے کہ اس کے عیوب کو چھپایا جائے جس طرح کے حضور نبی پاک صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس
نے میت کو غسل دیا اور اس کی پردہ پوشی کی تو اللہ پاک 40 مرتبہ اس کے گناہ کو
بخشے گا۔(مستدرک للحاکم،1/677، حدیث: 1347)
(9)ایصالِ
ثواب: مردہ قبر میں ڈوبتے ہوئے
انسان کی طرح ہوتا ہے اور کسی کی دعا کا انتظار کرتا ہے، جب کسی کی دعا پہنچتی ہے
تو اسے بہت خوشی ہوتی ہے بلکہ یہ اس کے لئے دُنیا وَمَا فِیْہَا سے بہتر ہوتی ہے، حدیث میں ہے: جب کوئی شخص میت
کو ایصالِ ثواب کرتا ہے تو جبرئیلِ امین اسے نُورانی طباق (بڑی تھالی) میں رکھ کر
قبر کے کَنارے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں: اے قبر والے! یہ تحفہ تیرے گھر
والوں نے بھیجا ہے قَبول کر۔ یہ سُن کر وہ خوش ہوتا ہے اور اس کے پڑوسی اپنی محرومی
پر غمگین ہوتے ہیں۔ (معجم اوسط، 5/37، حدیث: 6504)

حضورِ اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی مبارک میں تنبیہ و نصیحت کے مختلف انداز
نظر آتے ہیں، جن میں ایک اہم انداز یہ بھی ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ”اَلَا“ کے لفظ کے ذریعے اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی۔ لفظ ”اَلَا“عربی
زبان میں خبردار کرنے، تنبیہ کرنے یا کسی بات پر خاص طور پر توجہ دلانے کے لئے
استعمال ہوتا ہے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب کوئی ایسی بات بیان
فرماتے جسے امت کے لئے خاص طور پر یاد رکھنا ضروری ہوتا تو اکثر ”اَلَا“ کا
استعمال فرماتے تاکہ سننے والے پوری توجہ اور انہماک سے بات کو سنیں، سمجھیں اور
اس پر عمل کریں۔ آیئے! چند احادیثِ مبارکہ پڑھتے ہیں:
دل
کی اصلاح کی تاکید فرمائی: دل کی
حالت بیان کرتے ہوئے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اَلَا وَاِنَّ فِي
الْجَسَدِ مُضْغَةً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَاِذَا فَسَدَتْ
فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ اَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ یعنی خبردار! جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے، اگر وہ
درست ہو تو پورا جسم درست ہوتا ہے، اور اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے،
سُن لو! وہ دل ہے۔(بخاری، 1/33، حدیث: 52)
اس حدیث میں
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لفظ ”اَلَا“کو دو مرتبہ استعمال فرما
کر اُمّت کو دل کی پاکیزگی اور اصلاح کی تاکید فرمائی۔
ماتحتوں
کے بارے میں تاکید فرمائی: ایک
موقع پر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تمام لوگوں کو ماتحتوں کے بارے
میں تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ
رَعِيَّتِهِ یعنی سُن لو! تم میں
سے ہر ایک نِگَہبان ہے اور ہر ایک سے اُس کی رِعایا (ماتحتوں اور محکوم لوگوں) کے
بارے میں پرسِش(یعنی پوچھ گچھ) ہوگی۔(بخاری، 2/159، حدیث: 2554)
یہاں پر حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ”اَلَا“ کا استعمال کر کے شدت کے ساتھ لوگوں کو
ماتحتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید فرمائی ہے کہ تم سے تمہارے ماتحتوں کے
بارے میں پوچھا جائے گا لہٰذا اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔
دینِ
اسلام میں مساوات قائم رکھنے کی تاکید فرمائی: حجۃُ الوداع کے خطبہ میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے دینِ اسلام میں مساوات یعنی برابری کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد
فرمایا: یَااَیُّھَا
النَّاسُ اَلَا اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ اَلَا لَا
فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی اَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا
لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلَّا بِالتَّقْوٰی یعنی اے لوگو!سُن لو! بے شک تمہارا رب ایک ہے
اور بے شک تمہارا باپ(یعنی حضرت آدم علیہ السّلام) ایک ہے۔ خبردار! کسی عربی کو
کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے
کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔(مسند امام احمد، 9/127، حدیث:23548)
یہاں نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ”اَلَا“کا استعمال فرماکر مسلمانوں کو آپس میں
مساوات قائم رکھنے کی تاکید فرمائی تاکہ مسلمانوں میں تکبر و تفاخر ختم ہو اور
بھائی چارہ پروان چڑھے۔
ان احادیث کے
علاوہ بھی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کئی احادیث میں لفظ ”اَلَا“
کے ساتھ تنبیہات فرمائیں ہیں جن میں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہدایات شامل ہیں،
جن کا مقصد مسلمانوں کی زندگیوں کو بہتر اور پاکیزہ بنانا ہے۔
زین
العابدین (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)

حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کی زندگی مبارکہ میں تنبیہ و نصیحت کے مختلف انداز نظر آتے ہیں، جن میں
ایک اہم انداز یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "اَلَا" کے لفظ
کے ذریعے اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی۔۔"اَلَا" ایک عربی حرف تنبیہ ہے
جو معنی کے اعتبار سے "خبردار" یا "سن لو" کے مترادف ہے اورعربی
زبان میں خبردار کرنے، تنبیہ کرنے یا کسی بات پر خاص طور پر توجہ دلانے کے لئے
استعمال ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی ایسی بات بیان فرماتے جسے
امت کے لیے خاص طور پر یاد رکھنا ضروری ہوتا تو اکثر "اَلَا" کا استعمال
فرماتے تاکہ سننے والے پوری توجہ اور انہماک سے بات کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔
احادیث مبارکہ
میں "اَلَا" کا استعمال بارہا ملتا ہے، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم
امت کو خبردار فرماتے کہ وہ مخصوص اعمال سے دور رہیں یا کسی مخصوص بات پر عمل پیرا
ہوں۔ذیل میں اس طرح کی چند احایث نقل کی جا رہی ہیں جن میں ”اَلَا“ کے ذریعے تربیت
فرمائی گئی ہے :
(1)
عورت کے ساتھ تنہائی : وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ:
قَالَ رَسُول اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَلَا لَا يَبِيتَنَّ
رَجُلٌ عِنْدَ امْرَأَةٍ ثَيِّبٍ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَاكِحًا أَو ذَا مَحْرَمٍ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ روایت ہے حضرت
جابر سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے :خبردار کوئی مرد کسی
شادی شدہ عورت کے پاس رات نہ گزارے مگر یہ کہ اس کا خاوند ہو یا محرم رشتہ دار ۔ (مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 ، حدیث نمبر:3101 )
(2)
خطا شبہ عمد کی دیت: عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى
اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلَا إِنَّ دِيَةَ الْخَطَأِ شِبْهِ الْعَمْدِ
مَا كَانَ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا مِئَةٌ مِنَ الإِبلِ: مِنْهَا أَرْبَعُونَ فِي
بُطُونهَا أَوْلَادُهَا رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ ترجمہ:روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن عمرو سے کہ رسول
اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: خبردار کہ خطا شبہ عمد کی دیت جو کوڑے اور
لاٹھی سے ہو ایک سو اونٹ ہیں جن میں چالیس وہ ہوں جن کے پیٹ میں ان کے بچے ہوں ۔ (مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 ، حدیث نمبر:3490 )
(3)
قبروں کو سجدہ نہ کرنا : وَعَنْ جُنْدُبٍ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ -صَلَّى
اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَقُوْلُ:أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ
كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُوْرَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيْهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا
فَلَا تَتَّخِذُوْا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ، إِنِّيْ أَنْهَاكُمْ عَنْ ذٰلِكَ .
رَوَاهُ مُسْلِمٌ روایت ہے حضرت
جندب سے فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ خبردار
رہوتم سے اگلے لوگ اپنے نبیوں اورنیکوں کی قبروں کو سجدے گاہ بنالیتے تھے خبردارتم
قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں اس سے تمہیں منع کرتا ہوں ۔ (مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 ، حدیث نمبر:713 )
(4)
ظلم نہ کرنا : وَعَنْ
أَبِي حُرَّةَالرَّقَاشِي عَنْ عَمِّهٖ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى
اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسلم:أَلا لاَ تَظْلِمُوا أَلَا لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ
إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ ۔رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي شُعَبِ الإِيمَانِ وَالدَّارَقُطْنِيّ
فِي الْمُجْتٰبى روایت ہے حضرت ابو
حرہ رقاشی سے وہ اپنے چچا سے راوی فرماتے ہیں فرمایا رسو ل الله صلی اللّٰہ علیہ و
سلم نے خبردار ظلم نہ کرنا خبردار کسی شخص کا مال دوسرے کو حلال نہیں مگر اس کی
خوش دلی سے ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 ، حدیث نمبر:2946 )
(5)
اللہ پاک کا سودا جنت: وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى اللَّه عليه
وسلم: مَنْ خَافَ أَدْلَجَ، وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ، أَلَا إِنَّ
سِلْعَةَ اللَّهِ غَالِيَةٌ، أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ الْجَنَّةُ. رَوَاهُ
التِّرْمِذِيُّ روایت ہے حضرت
ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جو ڈرتا ہے وہ
اندھیرے اٹھاتا ہے،جو اندھیرے اٹھاتا ہے وہ منزل پر پہونچ جاتا ہے خبردار اللہ کا
سودا مہنگا ہےخبردار اﷲ کا سودا جنت ہے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:7
، حدیث نمبر:5348 )
محمد عدیل ( درجہ سادسہ
جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)

قرآن کریم
اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انس وجن کی
رہنمائی کے لیے آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ نازل
فرمایا آئیے اس بارے میں چند آیتیں ملاحظہ کرتے ہیں:
(1) یَضْرِبُ
اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ ترجمہ
کنز الایمان : اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں اس لئے
بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لائیں کیونکہ مثالوں سے معنی
اچھی طرح دل میں اتر جاتے ہیں۔ (جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: 25، ص208، خازن،
ابراہیم، تحت الآیۃ: 25، 3 / 82، ملتقطاً)
(3) لَوْ
اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا
مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ
لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ۔
ترجمۂ کنز الایمان: اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اُتارتے تو ضرور تو اُسے دیکھتا
جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللہ کے خوف سے اور یہ مثالیں لوگوں کے لیے ہم بیان فرماتے
ہیں کہ وہ سوچیں ۔
تفسیر صراط الجنان: یعنی قرآنِ مجید کی عظمت و
شان ایسی ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر اتارتے اور اُس کو انسان کی سی تمیز عطا
کرتے تو انتہائی سخت اور مضبوط ہونے کے باوجود تم اسے ضرورجھکا ہوا اور اللّٰہ
تعالیٰ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے ،ہم یہ اور اس جیسی دیگر مثالیں لوگوں کے لیے
بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ سوچیں (اور خیال کریں کہ جب ہم اشرف المخلوقات ہیں تو
چاہیے کہ ہمارے اعمال بھی اشرف و اعلیٰ ہوں۔) (مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: 21، ص1228، خازن،
الحشر، تحت الآیۃ: 21، 4 / 253، ملتقطاً)
(4) وَ
تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا
الْعٰلِمُوْنَ ترجمۂ کنز
الایمان:اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں اور اُنہیں نہیں سمجھتے
مگر علم والے۔
تفسیر صراط الجنان: کفارِ قریش نے طنز کے طور پر
کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مکھی اور مکڑی کی مثالیں بیان فرماتا ہے اور اس پر انہوں نے
مذاق اڑایا تھا ۔ اس آیت میں ان کا رد کر دیا گیا کہ وہ جاہل ہیں جو مثال بیان کئے
جانے کی حکمت کو نہیں جانتے ،کیونکہ مثال سے مقصود تفہیم ہوتی ہے اور جیسی چیز ہو
اس کی شان ظاہر کرنے کے لئے ویسی ہی مثال بیان کرنا حکمت کے تقاضے کے عین مطابق ہے
اور یہاں چونکہ بت پرستوں کے باطل اور کمزور دین کی کمزوری اوربُطلان بیان کرنا
مقصود ہے لہٰذا اس کے اِظہار کے لئے یہ مثال انتہائی نفع مندہے اور ان مثالوں کی
خوبی، نفاست،عمدگی ، ان کے نفع اور فوائد اور ان کی حکمت کو وہ لوگ سمجھتے ہیں جنہیں
اللہ تعالیٰ نے عقل اور علم عطافرمایا ہے جیسا کہ یہاں بیان کی گئی مکڑی کی مثال
نے مشرک اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کرنے والے کا حال خوب اچھی طرح ظاہر
کر دیا اور فرق واضح فرما دیا ۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: 43، ص893،
ملخصاً)

قراٰنِ مجید
سراپا حکمت ہے،اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بھلائی پر قائم رکھنے کےلئے اور زندگی میں
عبرت سیکھنے کےلئے قراٰنِ کریم میں کئی مثالیں بیان کی ہیں ان میں ہر مثال اپنے
اندر کئی اسرار اور حکمتیں رکھتی ہے۔یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ اپنی آنکھوں سے
کسی چیز کا مشاہدہ کرتا ہے تو یقین کی اعلیٰ سطح پر چلا جاتا ہے۔اس لئے اللہ پاک
نے ایسی مثالیں بیان کی ہیں جس سے انسان یا تو براہِ راست متعارف ہوتا ہے یا
بالواسطہ ان کی خبر رکھتا ہے اللہ پاک نے قراٰن میں جو امثال بیان کی ہیں وہ اس
طرح جامع ہیں کہ تاریخِ انسانیت کے تمام ادوار کےلئے ان میں عبرتیں پوشیدہ ہیں ہر
زمانے کے علمائے کرام ان مثالوں سے اپنے زمانےکے لوگوں کی راہنمائی کے لئے دروس و
عبرتیں بیان کرتے آرہے ہیں۔آئیے! قراٰنِ مجید کی چند مثالوں کی حکمتیں ملاحظہ
فرمائیے:
(1)غورو
فکر کرنا: اللہ پاک نے قراٰنِ مجید
میں مثالیں بیان فرمائیں تاکہ لوگ اس میں غورو فکر کریں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ
ہے:
﴿وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۲۱)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان:اور یہ مثالیں لوگوں کے لیے ہم بیان
فرماتے ہیں کہ وہ سوچیں۔(پ28،الحشر:21)
(2)نصیحت
حاصل کریں: اللہ پاک لوگوں کے لئے
مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لائیں کیونکہ مثالوں سے
بات اچھی طرح دل میں اتر جاتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَیَضْرِبُ
اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۲۵)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان
فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں۔(پ13،ابراھیم:25)
(3)کفارِ
قریش کی جہالت کو بیان کرنا: کفارِ
قریش نے مذاق اڑاتے ہوئے بطور طنز کہا تھا کہ اللہ مکھی اور مکڑی کی مثالیں بیان
فرماتا ہے۔ قراٰن کریم میں ان کا رد کر دیا گیا کہ وہ جاہل ہیں جو مثال بیان کرنے
کی حکمت کو نہیں جانتے،کیونکہ مثال سے مقصود تفہیم ہوتی ہے اور جیسی چیز ہو اس کے
لئے ویسی ہی مثال بیان کرنا حکمت کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری
تعالیٰ ہے:
﴿وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَمَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ(۴۳)﴾ترجَمۂ کنزالایمان: اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان
فرماتے ہیں اور اُنہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے۔(پ 20،العنکبوت:43)
(4)منافقوں
کو گمراہ کرنا اور مسلمانوں کو ہدایت دینا: نزولِ قراٰن کا اصل مقصد تو ہدایت ہے لیکن چونکہ قراٰنی مثالوں کے ذریعے
بہت سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں جن کی عقلوں پر جہالت کا غلبہ ہوتا ہے اور کلام کے
بالکل معقول، مناسب اور موقع محل کے مطابق ہونے کے باوجود وہ اس کا انکار کرتے ہیں
اور انہی مثالوں کے ذریعے اللہ پاک بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو غور و تحقیق
کے عادی ہوتے ہیں اور انصاف کے خلاف بات نہیں کہتے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاَمَّا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-وَاَمَّا
الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًاۘ-یُضِلُّ
بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّیَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًاؕ-وَمَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا
الْفٰسِقِیْنَۙ(۲۶)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: تو وہ جو ایمان لائے وہ تو جانتے ہیں
کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے رہے کافر وہ کہتے ہیں ایسی کہاوت میں اللہ کا کیا
مقصود ہے اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور
اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں۔(پ1،البقرۃ:26)