حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی مبارک میں تنبیہ و نصیحت کے مختلف انداز نظر آتے ہیں، جن میں ایک اہم انداز یہ بھی ‏ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ”اَلَا“ ‏کے لفظ کے ذریعے اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی۔ لفظ ”اَلَا“عربی زبان میں خبردار کرنے، ‏تنبیہ کرنے یا کسی بات پر خاص طور پر توجہ دلانے کے لئے استعمال ‏ہوتا ہے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب کوئی ایسی بات بیان ‏فرماتے جسے امت کے لئے خاص طور پر یاد رکھنا ضروری ہوتا تو اکثر ”اَلَا“ کا استعمال فرماتے تاکہ سننے ‏والے پوری توجہ اور انہماک سے ‏بات کو سنیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ آیئے! چند احادیثِ مبارکہ پڑھتے ہیں:‏

دل کی اصلاح کی تاکید فرمائی:‏ دل کی حالت بیان کرتے ہوئے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اَلَا وَاِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ ‏الْجَسَدُ كُلُّهُ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ اَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ یعنی خبردار! جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے، اگر وہ درست ہو تو پورا ‏جسم درست ہوتا ہے، اور اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے، سُن لو! وہ دل ‏ہے۔(بخاری، 1/33، حدیث: 52)‏

اس حدیث میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لفظ ”اَلَا“کو دو مرتبہ استعمال فرما کر اُمّت کو دل کی پاکیزگی اور اصلاح کی تاکید ‏فرمائی۔

ماتحتوں کے بارے میں تاکید فرمائی:‏ ایک موقع پر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تمام لوگوں کو ماتحتوں کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ ‏وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ یعنی سُن لو! تم میں سے ہر ایک نِگَہبان ہے اور ہر ایک سے اُس کی رِعایا (ماتحتوں اور محکوم لوگوں) کے بارے ‏میں پرسِش(یعنی پوچھ گچھ) ہوگی۔(بخاری، 2/159، حدیث: 2554)‏

یہاں پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ”اَلَا“ کا استعمال کر کے شدت کے ساتھ لوگوں کو ماتحتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی ‏تاکید فرمائی ہے کہ تم سے تمہارے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا لہٰذا اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔

دینِ اسلام میں مساوات قائم رکھنے کی تاکید فرمائی:‏ حجۃُ الوداع کے خطبہ میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دینِ اسلام میں مساوات یعنی برابری کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد ‏فرمایا: یَااَیُّھَا النَّاسُ اَلَا اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی اَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا ‏لِاَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلَّا بِالتَّقْوٰی یعنی اے لوگو!سُن لو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ(یعنی حضرت آدم علیہ السّلام) ایک ‏ہے۔ خبردار! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی ‏فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔(مسند امام احمد، 9/127، حدیث:23548)‏

یہاں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ”اَلَا“کا استعمال فرماکر مسلمانوں کو آپس میں مساوات قائم رکھنے کی تاکید فرمائی تاکہ ‏مسلمانوں میں تکبر و تفاخر ختم ہو اور بھائی چارہ پروان چڑھے۔

ان احادیث کے علاوہ بھی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کئی احادیث میں لفظ ”اَلَا“ کے ساتھ تنبیہات فرمائیں ہیں جن میں ‏زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہدایات شامل ہیں، جن کا مقصد مسلمانوں کی ‏زندگیوں کو بہتر اور پاکیزہ بنانا ہے۔

اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم