صرف رضائے الٰہی کے لئے کسی سے دوستی کرنا اور بھائی چارہ قائم کرنا دین اسلام کی افضل عبادتوں میں سے ہے۔ چنانچہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :افضلُ الأعمالِ الحب فی اللہ و البغض فی اللہیعنی بہترین عمل الله کے لئے محبت اور الله کے لئے عداوت ہے۔(مشکاة المصابیح،1/ 15)دینِ اسلام نے جیسے دیگر امور میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے ۔اسی طرح تعلقات و معاملات میں بھی ہماری رہنمائی فرمائی ہے ۔ لہٰذا جب بھی کسی دوستی اور بھائی چارے کا تعلق قائم ہوجائے تو کچھ حقوق کا خیال رکھنا چاہیے ۔

پہلا حق یہ ہے کہ دوست کو مال کی ضرورت ہو تو اس پر ایثار کرے، جیسے قراٰنِ مجید میں فرمایا: ﴿ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اُنہیں شدید محتاجی ہو (پ 28، الحشر : 9)

دوسرا حق یہ ہے کہ دوست اور ساتھی کی حاجات و ضروریات میں اس کے کہنے سے پہلے اس کی مدد کرے اور خوش دلی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ اس کی خدمت کرے۔ سلف صالحین میں سے ایک بزرگ تھے۔ جنہوں نے اپنے دینی بھائی کی موت کے بعد چالیس سال تک اس کے بال بچوں کی خبر داری کا فریضہ ادا کیا۔

تیسر ا حق زبان کا حق ہے کہ اپنے بھائیوں کے حق میں نیک بات کہے۔ ان کے عیب چھپائے۔ اگر کوئی پس پشت ان کی بد گوئی کرے تو اس کا جواب دے اور ایسا خیال کرے کہ وہ دیوار کے پیچھے سن رہا ہے اور جس طرح یہ خود چاہتا ہے کہ وہ پس پشت اس کے ساتھ وفادار رہے اس کے پس پشت یہ خود بھی اس کا وفادار رہے۔

چوتھا حق یہ ہے کہ زبان سے شفقت اور دوستی کا اظہار کرے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں: اذَا أَحَبَّ اَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُعْلِمْهُ إِيَّاهُ ترجمہ: جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے دوستی رکھتا ہو تو اس کو اس سے آگاہ کر دے۔ (ترمذی حدیث:2399) یہ آپ نے اس لیے فرمایا ہے کہ اس کے دل میں بھی محبت پیدا ہو۔

پانچواں حق یہ ہے کہ اگر اسے علم دین کی ضرورت ہو تو سکھائے کہ اپنے بھائی کو دوزخ کی آگ سے بچانا دنیا کے رنج و الم سے نجات دینے سے زیادہ اہم و ضروری ہے۔ اگر اسے سکھایا پھر اس نے اس پر عمل نہ کیا تو اسے سمجھائے نصیحت کرے اور خدائے تعالیٰ کا خوف دلائے۔

چھٹی قسم حقوق کی یہ ہے کہ جو بھول چوک صادر ہو جائے اسے معاف کر دینا چاہیے کہ بزرگان دین نے کہا ہے کہ اگر تیرا کوئی بھائی قصور کر بیٹھے تو اس کی طرف سے ستر قسم کی عذر خواہی قبول کر۔

ساتویں قسم کا یہ حق ہے کہ اپنے دوست کو دعائے خیر میں یاد رکھے اس کی زندگی میں بھی اور اس کی موت کے بعد کبھی نیز اس کے بال بچوں کے لیے بھی دعا کرتا رہے۔ جس طرح اپنے لیے دعا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ دعا حقیقتا تو خود اپنے لیے کرے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کی دعا پر کہتا ہے خدا تجھے بھی ایسا ہی عطا کرے اور ایک روایت میں ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں اس دعا کے جواب میں عطا کرنے میں تجھ سے ابتدا کرتا ہوں۔

آٹھویں قسم کا حق یہ ہے کہ وفائے دوستی کی حفاظت کی جائے وفاداری کا ایک معنی یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے اہل و عیال اور دوستوں سے غفلت نہ برتے۔

نویں قسم کا حق یہ ہے کہ دوست کے حق میں تکلیف و بناوٹ کو قریب نہ آنے دے اور دوستوں کے درمیان بھی اسی طرح رہے جیسے اکیلے رہتا ہے۔ اگر ایک دوسرے سے رعب و دبدبے سے پیش آئیں تو وہ دوستی ناقص ہے۔ دسویں قسم کا حق یہ ہے کہ اپنے آپ کو اپنے دوستوں سے کمتر خیال کرے اور ان کے ساتھ کسی معاملے میں رعب و تحکم کے ساتھ پیش نہ آئے اور رعایت کی بات ان سے پوشیدہ نہ رکھے اور ان کے تمام حقوق ادا کرے۔(کیمیائے سعادت مترجم ص 291 تا 302 ملخصاً)

یا اللہ کریم ہمیں صرف اپنی رضا کی خاطر دوستی اور بھائی چارہ قائم کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ اور دوستی اور بھائی چارہ کے تمام حقوق کا خیال رکھنے کی سعادت عطا فرما۔آمین


انسانی زندگی میں بعض لوگوں سے تعلقات اس حد تک بڑھ جاتے ہیں جنہیں کسی رشتے کا نام تو نہیں دیا جاتا لیکن انہیں نبھانا ضروری سمجھا جاتاہے، ان میں ایک اہم تعلق دوستی (Friendship) کا بھی ہے۔ دوستی کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہمارے معاشرے میں تقریباً سبھی لوگ کسی نہ کسی سے دوستی کا دم بھرتے ہیں۔

روزمرّہ کے مشاہدات اور تاریخ (History) کے مطالعہ سے بخوبی آشکار ہوتاہے کہ بہت سے لوگ اچھے دوستوں کی وجہ سے دنیا میں بھی کامیاب رہے اور آخرت کی بھلائی والے کاموں میں بھی لگے رہے، جبکہ ایسوں کی بھی کمی نہیں جو برے دوستوں کی وجہ سے دنیا و آخرت کی بربادی والے راستے پر چل نکلے۔ ایک مسلمان کو کسے دوست بنانا چاہئے اور اسلامی معاشرے میں دوستی کے تقاضے کیا ہیں؟ آئیے اس بارے میں چند مدنی پھول ملاحظہ کرتے ہیں:

تاجدارِ لاہور، شیخ المشائخ، حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور زمانہ کتاب کشف الْمَحْجُوب میں لکھتے ہیں: ایک شخص کعبہ شریف کا طواف کر رہا تھا، اس دوران اس کی زبان پر صرف ایک ہی دُعا تھی: اے اللہ پاک! میرے دوستوں کو نیک بنا دے۔ کسی نے پوچھا: اس مقام پر تم اپنے لئے دعا کیوں نہیں مانگتے ؟ صرف دوستوں کے لئے ہی کیوں دُعا کر رہے ہو ؟ اُس شخص نے بہت کمال (Excellent ) جواب دیا، کہا: میں (یہاں مکہ مکرمہ میں تو نیک کاموں میں مصروف ہوں مگر جلد ہی میں) نے واپس اپنے دوستوں کے پاس جانا ہے ، اگر وہ نیک ہوئے تو میں نیک بن جاؤں گا اور اگر وہ خراب ہوئے تو ان کی خرابی مجھے بھی پہنچ کر رہے گی ، لہذا میں اپنے دوستوں کے لئے دُعا کر رہا ہوں۔( كشف المحجوب، مترجم، صفحہ: 499 بتغیرٍ)

انسان کی طبیعت اور فطرت (Nature) ہی ایسی ہے کہ بالکل تنہا زندگی نہیں گزار سکتا، اللہ پاک نے ہم انسانوں کی ضروریات کو ایک دوسرے کے ساتھ یوں جوڑ دیا ہے کہ ہم چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر ہی زندگی گزارتے ہیں، ہمیں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی لحاظ سے دوسروں کی ضرورت رہتی ہے۔ منقول ہے: ایک شخص یوں دُعا کر رہا تھا: اللهُمَّ اغنِي عَنِ النَّاسِ اے اللہ پاک! مجھے لوگوں سے بے نیاز کر دے۔ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سنا تو فرمایا: اے شخص! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اللہ پاک سے موت کی دعا مانگ رہے ہو ! بے شک انسان جب تک زندہ ہیں، ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ اس کی بجائے یوں دُعا کرو: اللَّهُمَّ اغْنِنِي عَنْ شِرَارِ النَّاسِ اے اللہ پاک! مجھے بُرے لوگوں سے محفوظ فرما(ادب الاختلاط بالناس، صفحہ : 56)

دوستی کے آداب سیکھنا ضروری ہے: ہم لوگوں کے ساتھ میل جول ، تعلقات وغیرہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتے، جب تک زندہ ہیں، ہمیں دوسروں کے ساتھ ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، دوستی، تعلق رکھنا ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں دوستی اور نیک صحبت کے آداب پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نفس کی عادت ہے کہ اپنے ساتھیوں سے راحت پاتا ہے، جس قسم کے لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے، انہی کی عادات اختیار کر لیتا ہے، اسی لئے مشائخ (یعنی اولیائے کرام) سب سے پہلے دوستی کے حقوق پر توجہ دیتے اور مریدوں کو اسی کی ترغیب (Motivation) دلاتے ہیں، یہاں تک کہ مشائخ کے ہاں دوستی کے آداب سیکھنا اور ان پر عمل کرنا فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ ( كشف المحجوب مترجم ، صفحہ: 499 بتغیرٍ)

انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ترمذی شریف کی حدیث پاک ہے، اللہ پاک کے آخری نبی، رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا: الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہذا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کر رہا ہے۔

(2) یعنی عموماً انسان اپنے دوست کی سیرت و اخلاق اختیار کر لیتا ہے، کبھی اس کا مذہب بھی اختیار کر لیتا ہے، لہذا اچھوں سے دوستی رکھو تا کہ تم بھی اچھے بن جاؤ! اور کسی سے دوستی کرنے سے پہلے اسے جانچ لو کہ اللہ ورسول کا فرمانبر دار ہے یا نہیں۔ صوفیائے کرام فرماتے ہیں: انسان کی طبیعت میں اخذ کرنے کی خاصیت (Quality) ہے ، حریص کی صحبت سے حرص اور زاہد کی صحبت سے زہد و تقویٰ ملے گا (لہذا ہر ایک کو چاہئے کہ کسی کو دوست بنانے سے پہلے خوب غور و فکر کر لے، جانچ لے کہ میں کسے دوست بنارہا ہوں )۔ ( ترمذی، کتاب الزہد، صفحہ :566، حدیث: 2378)

دوستوں کے چند حقوق ذکر کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے:

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو پیکر اُنس و محبت بنایا ہے ۔دنیا میں اس کیلئے کچھ خونی رشتے ہیں اور کچھ قلبی، قلبی رشتوں میں ایک عظیم رشتہ دوستی کا ہے ۔انسان فطرۃً دوست سے تمام معاملات میں تبادلہ خیال کر کے فرحت محسوس کرتے ہوئے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا ہے ۔ہم نے مسلمانوں کی باہمی ، دوستی ،بھائی چارگی اور محبت و مؤدت کے بارے میں فوائد عظیمہ جمع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اﷲ تعالیٰ اسے شرف قبولیت بخشے اور ذریعہ ہدایت بنائے ۔آمین

باہمی دوستی کے اسباب:ایک مسلمان کے دل میں دوسرے مسلمان کی محبت اور دوستی پیدا ہونے کے چند اسباب ہیں ۔ پہلا سبب حسن و جمال ہے کہ حسین انسان سے محبت اور دوستی کا خواہاں ہر حسن پسند شخص ہوتا ہےاور اس کا دوسرا سبب مالداری ہے کہ مالدار شخص سے ہر دولت پسند شخص کو فطر ی طور پر محبت ہو جاتی ہے اور اس کا تیسرا سبب ہم وطنی ہے کہ ہم وطن دو اشخاص پر دیس میں فطری طور پر ایک دوسرے سے مانوس ہو جاتے ہیں اور ان میں محبت و اخوت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا چوتھا سبب ہم قوم ہونا ہے کہ ایک قوم کے اشخاص خونی تعلق کی بنا پر فطرتی طور پر ایک دوسرے کے ہمدرد بن جاتے ہیں اور اس کا پانچواں سبب پارسائی اور پاکبازی ہے کہ پار سا اور پاکباز انسان سے مسلمانوں کو قلبی کشش ہوتی ہے۔

مذکورہ بالا سب قسم کی دوستیاں اور بھائی چارگیاں شرعاً محمود ہیں جبکہ وہ شرعی حدود وضوابط کے اندر ہوں لیکن آخری قسم کی دوستی شرع شریف کی نظر میں بہت عزیز اور پسندیدہ ہے ۔ نیک انسان سے دوستی دنیا و آخرت کے فوائد کے حصول میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے ۔ اور جب اس دوستی کی بنیاد محض رضائے الہٰی پر ہو تو پھر اس کے فوائد و ثمرات کا سلسلہ لا متناہی طوالت اختیار کر لیتا ہے ۔ ہم نے اس مختصر مضمون میں اسی جانب مسلمانوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔

دوستی شریعت کی نظر میں:اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنزالعرفان:نہ اندھے پر تنگی اور نہ لنگڑے پر مضائقہ اور نہ بیمار پر روک اور نہ تم میں کسی پر کہ کھاؤ اپنی اولاد کے گھریا اپنے باپ کے گھریا اپنی ماں کے گھریا اپنے بھائیوں کے یہاں یا اپنی بہنوں کے گھریا اپنے چچاؤں کے یہاں یا اپنی پھپیوں کے گھریا اپنے ماموؤں کے یہاں یا اپنی خالاؤں کے گھریا جہاں کی کنجیاں تمہارے قبضہ میں ہیں یا اپنے دوست کے یہاں۔ (پ18، النور: 61)

شان نزول :اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ صحابہ کرام حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ جہاد کو جاتے تو معذور صحابہ کو جو بوجہ عذ ر جہاد میں شرکت نہیں کر سکتے تھے اپنے گھروں کی چابیاں دے جاتے تھے کہ وہ ان کے گھروں کی دیکھ بھال رکھیں اور انہیں اجازت دے جاتے تھے کہ کھانے پینے کی چیزیں نکال کر کھائیں پئیں ۔ لیکن یہ حضرات اس خرچ کرنے میں بہت حرج محسوس کرتے تھے تو ان کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔(نور العرفان، صفحہ571)

اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے جہاں رشتہ داروں کو تفصیل سے ذکر فرمایا وہاں دوستوں کو بھی ذکر فرمایا اور دوستوں کو رشتہ داروں کے حکم میں رکھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرع شریف دوستی کے رشتہ کا بھی لحاظ کرتی ہے ۔

نیکوں کی دوستی کا آخرت میں فائدہ:اﷲ تعالیٰ دوزخیوں کے احوال کے بارے میں فرماتا ہے : ترجمۂ کنزالعرفان:وہ گمراہ کہیں گے اس حال میں کہ وہ اس میں باہم جھگڑرہے ہوں گے۔ خدا کی قسم، بیشک ہم کھلی گمراہی میں تھے۔ جب ہم تمہیں تمام جہانوں کے پروردگار کے برابر قرار دیتے تھے۔ اور ہمیں مجرموں نے ہی گمراہ کیا۔ تو اب ہمارے لئے کوئی سفارشی نہیں ۔ اور نہ ہی کوئی غم خوار دوست ہے۔(پ19، الشعرآء: 96تا 100)

مفسر علاؤ الدین فرماتے ہیں:’’یہ بات کافر اس وقت کہیں گے جب فرشتے انبیاء او رمومنین گناہ گار دوزخی مسلمانوں کی شفاعت کریں گے اور اﷲ تعالیٰ ان کی شفاعت کی وجہ سے انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل فرمائے گا۔ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’بلا شبہ کوئی شخص جنت میں ہو گا تو وہ کہے گا میرے فلاں دوست کا کیا حال ہے ؟ حالانکہ اس کا وہ دوست جہنم میں ہو گا تو اﷲ تعالیٰ فرمائے گا اس کیلئے اس کے دوست کو جنت کی طرف نکال لاؤ ۔ سو جو باقی جہنمی ہوں گے وہ یہ کہیں گے کہ اب ہمارا کوئی سفارشی نہیں اور نہ کوئی غمخوار دوست ہے ۔ ‘‘(تفسیر خازن، جلد 5)

اور مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں :حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اﷲ کی قسم جہنمی کفار یہ جانتے ہوں گے کہ دوست جب نیکو کار ہو تو وہ نفع دیتا ہے اور غمخوار دوست جب نیکو کار ہو تو وہ سفارش کرتا ہے ۔(تفسیر ابن کثیر، جلد 3) نیکو کار سچے دوستوں کے حالات کے متعلق چند احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں :

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:’’بلا شبہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا میری بزرگی کے سبب سے جو لوگ ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں وہ کہاں ہیں؟ آج میں انہیں اپنے سایہ میں بساؤں گا ۔ آج میرے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ۔ (رواہ مسلم)

انہی سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ایک شخص اپنے دوست بھائی کی زیارت کیلئے دوسری بستی کی طرف نکلاتو اﷲ تعالیٰ نے اس کے راستہ میں ایک فرشتہ بٹھادیا ۔فرشتے نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے ؟ اس نے کہا: میں اس بستی میں رہنے والے ایک دوست بھائی کی ملاقات کا ارادہ رکھتا ہوں ،فرشتے نے پوچھا :کیا اس شخص نے تجھ پر کوئی احسان کیا ہے جس کو تم پالنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا نہیں بلکہ میں اس سے صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے محبت رکھتا ہوں ، فرشتے نے کہا:تو میں اﷲ کا بھیجا ہوا (فرشتہ ) ہوں اور سن لے کہ جس طرح تو نے اس شخص سے اﷲ تعالیٰ کیلئے محبت کی ہے اسی طرح اﷲ تعالیٰ کا تو محبوب بن گیا ہے ۔(رواہ مالک ، مشکوٰۃ)

اور ترمذی شریف کی روایت میں ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :میری عظمت کے سبب ایک دوسرے سے محبت رکھنے والے لوگ نورانی منبروں پر ہوں گے ۔ ان پر نبی اور شہید رشک کریں گے ۔ (مشکوٰۃ، جلد2)

حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ تو دوستی اور سنگت صرف مؤمن سے کر اور تو کھانا کھلا پرہیز گار شخص کو ۔(ترمذی، مشکوٰۃ )

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مرد اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے پس اسے دیکھنا چاہیے کہ وہ دوست کسے بنا رہا ہے ۔(مشکوٰۃ)

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر دو شخص ایک دوسرے سے اﷲ کی رضا کیلئے محبت رکھتے تھے ان میں سے ایک مشرق میں تھا اور دوسرا مغرب میں تو قیامت کے روز اﷲ ان دونوں کو جمع فرمائے گا اور کہے گا یہ وہ شخص ہے جس سے تو میری رضا کیلئے محبت رکھتا تھا ۔ (مشکوٰۃ)

مسلمان ان احادیث مبارکہ کو پڑھیں اور نیکو کار مسلمانوں سے اﷲ کی رضا کیلئے دوستی اور تعلقات قائم کرنے والوں کے فضائل جانیں اور عمل کی کوشش کریں ۔اﷲ تعالیٰ توفیق عمل بخشے اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

بُروں کی دوستی نقصان دہ ہے:شرع شریف نے جہاں نیکوں کی دوستی کے فوائد بیان کئے وہاں یہ بھی بتایا کہ بروں کی دوستی نقصان دہ ہوتی ہے ۔چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اچھے دوست اور برے دوست کی مثالیں کستوری اٹھانے والے اور بھٹی پھونکنے والے کی مثالوں جیسی ہیں ۔ کستوری اٹھانے والاتجھے مفت کستوری دے دے گا یا اس سے کستوری خرید لے گا یا تو اس سے خوشبو پائے گا اور بھٹی جلانے والا یا تو تیرے کپڑے جلائے گا یا تو اس سے بدبو پائے گا۔(بخاری و مسلم)

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہو ں گے مگر پرہیز گار۔(پ25، الزخرف: 67)یعنی دنیا کی دوستیاں قرابتیں قیامت میں دشمنی میں تبدیل ہو جائیں گی مؤمن باپ کا فر بیٹے کا دشمن ہو جائے گا بلکہ کافر کے اعضاء بھی اس کے دشمن ہو جائیں گے اور اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ دنیا فانی ہے تو دنیا کی دوستی بھی فانی ہے ۔نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مؤمنوں کی قرابت داریاں اور دوستیاں قیامت میں کام آئیں گی ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب دو مؤمن دوستوں میں سے ایک مر جاتا ہے تو وہ بارگاہ الہٰی میں عرض کرتا ہے ۔ مولا میرا فلاں دوست مجھے اچھے کام کا مشورہ دیتا تھا اور برے کام سے روکتا تھا۔ مولامیرے بعد اسے گمراہ نہ کرنا ۔اس کا ایسا ہی اکرام فرمانا جیسا تو نے میرا اکرام فرمایا اور دو کافر دوستوں سے جب ایک مرجاتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے یا رب فلاں شخص مجھے اچھے کاموں سے روکتا اور بری باتوں کا مشورہ دیتا تھا تو اسے ہلاک فرما ۔ غرضیکہ قیامت سے پہلے ہی یہ محبتیں یہ عداوتیں شروع ہو جاتی ہے ۔ (خزائن العرفان و روح البیان)

لہٰذا دوستی پاک صاف اور اﷲ تعالیٰ کی رضا کیلئے رکھی جائے تو دنیا میں کامیابی اور آخرت میں سر بلندی کی علامت ہے ۔ الحمد ﷲ یہاں تک جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس سے دوستوں کے حقوق و فرائض پر بقدر کفایت روشنی پڑ گئی ہے۔اﷲ تعالیٰ توفیق بخشے۔


دوستی ایک اچھا اور بہت اہم رشتہ ہے، اکثر اوقات زندگی میں اس کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس دنیا کی ہر چیز موجود ہو لیکن اچھا دوست نہ ہو تو اس کو زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور وہ زندگی میں خوش نہیں رہ سکتا۔ جس کا اچھا دوست ہو تو وہ اس کے ساتھ اپنے غموں اور خوشیوں کو شیئر کر سکتا ہے۔ دوست تو کوئی بھی ہو سکتا ہے لیکن دوستی اسی سے کرنی چاہیے جو نیک اور متقی ہو تاکہ ہمیں دنیاوی فوائد کے ساتھ ساتھ اُخروی فوائد بھی حاصل ہوں ۔ جس طرح ماں ، باپ عزیز و اقربا وغیرہ کے حقوق ہیں اسی طرح دوستوں کے بھی کچھ حقوق ہیں آئیے ان میں سے چند ملاحظہ کرتے ہیں:

دعا کرنا : دوستوں کے حقوق میں سے ہے کہ اس کی زندگی اور اس کے مرنے کے بعد بھی دعا کرے۔ دوست کے لیے اس کی زندگی اور مرنے کے بعد ہر اس چیز کی دعا کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ حدیث پاک میں اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کے لیے دعا کے بارے میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد ہے :جب آدمی اپنے بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی اس کی مثل ہو۔ (صحیح مسلم، حدیث : 2732)

دوست کے اہل و عیال کی خبر گیری رکھنا : دوست کی موجودگی و غیر موجودگی میں اس کے بچوں اور گھر والوں کی دیکھ بھال کرنا بھی دوستوں کے حقوق میں سے ہے۔ بعض اسلاف کرام رحمہم اللہ السلام اپنے دوست کی وفات کے بعد 40 سال تک ان کے اہل وعیال کی خبر گیری کرتے ، ان کی حاجات پوری کرتے اور روزانہ ان کے پاس جاتے اور اپنا مال ان پر خرچ کرتے تھے۔

مالی مدد کرنا : جب دوست مالی لحاظ سے کمزور ہو تو اس کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اپنے مال کے ذریعے اس کی مدد کی جائے۔ مال کے ذریعے اپنے دوست کی مدد یا تو اس درجہ کی ہو کہ اپنے دوست کو خود پر ترجیح دی جائے اور اس کی حاجت کو اپنی حاجت پر مقدم رکھا جائے یا اس درجہ کی ہو کہ دوست کو وہی مرتبہ دیا جائے جو خود کو دیتا ہو یا اس درجہ کی ہو کہ اپنے دوست کو غلام یا خادم کا مرتبہ دیا جائے اور یہ بہت ادنی درجہ ہے، دوست کی ضروریات اپنے مال سے پوری کی جائیں اسے سوال کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اگر سوال کرنے پر مجبور کیا تو یہ دوست کے حق میں بہت بڑی کوتاہی شمار کی جائے گی۔

خاموش رہنا : دوست کے عیوب اور نا پسندیدہ باتیں بیان کرنے سے بھی خاموش رہا جائے۔ خاموش رہنے کے چند مواقع ہیں: (1) دوست کی موجودگی و عدم موجودگی میں اس کے عیوب بیان کرنے سے زبان کو روکے (2) اس کی بات رد نہ کرے (3) ایسی باتیں نہ کرے جس سے وہ پریشان ہو وغیرہ۔

اچھے نام سے پکارے:دوست کا حق یہ بھی ہے کہ اس کی موجودگی اور عدم موجودگی میں اسے اچھے نام سے یاد کیا جائے ، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقی اعظم رضی اللہ عنہ نے تین ایسی باتیں ارشاد فرمائیں کہ جن کو اپنانے سے دل میں مسلمان بھائی کی محبت بڑھتی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے پسندیدہ نام سے پکارا جائے ۔

ہم اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں نیک و پرہیز گار دوست عطافرمائے اور ان کے حقوق جاننے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فر مائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


خالقِ دنیا نے کائنات کو عالَمِ اسباب بنایا، اس دھرتی پر رہنے والے انسان کی فطرت میں اُنسیت کا عنصر رکھا اسی لیے اسے ”انسان“ کہا جاتا ہے، کیونکہ انسان بہت کمزور ہے اور ایک انسان دوسرے انسان کی طرف محتاج ہے!”ورنہ اگر صرف ایک روٹی جو انسان کھاتا ہے اگر کہہ دیا جائے کہ اس کے لیے خود زمین میں دانہ ڈالے، پھر ہل چلائے کھیت لگائے پورا سال کھیتی باڑی کرے محنت کرے پھر جب دانا اُ گ جائے تو خود کٹائی کرے پھر اسے پسوائے اور پھر جا کر اس پسے ہوئے آٹے کو گوند کر اس کی روٹی بنائے تو انسان کا نظامِ زندگی مشکل تر ہو جائے۔لہذا انسان اپنی زندگی کئی رشتوں کے درمیان گزارتا ہے انہیں میں ایک بہت خوبصورت و اہم رشتہ دوستی کا رشتہ ہے۔

دوستی کی اہمیت: کسی بھی چیز کو جاننے سے پہلے اس کی اہمیت کو بیان کرنا ضروری ہے، دوستی انسان کی ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی مقدس رشتہ ہے کہ اس رشتہ کو اللہ عزوجل کے نیک صالحین، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے صحابہ کاملین بلکہ خود رب العالمین نے اختیار فرمایا! چنانچہ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔(پ5، النسآء:125)اور حدیث میں ہے: وَقَدِ اتَّخَذَ اللّٰهُ صَاحِبَكُمْ خَلِيلًا اور اللہ نے تمہارے صاحب کو دوست بنایا۔اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صاحبکم سے مراد خود حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات گرامی ہے۔ (مراٰۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:8 حدیث نمبر:6020)

دوست کون ہو: آج ہمارا معاشرہ علمِ دین سے بہت دور ہوگیا! جس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ بعض نام نہاد روشن خیالی کی زد میں آنے والے مسلمان غیر مسلموں سے دوستی کرنے لگے، جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومنوں کو سختی سے منع فرمایا ہے کہ وہ کفار کو اپنا دوست نہ بنائیں، ان سے محبت نہ کریں، بلکہ اللہ و رسول اور مسلمانوں ہی کو اپنا دوست بنائیں، اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالعرفان: تم ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں توان کی جانوں نے ان کے لئے کتنی بری چیز آگے بھیجی کہ ان پراللہ نے غضب کیا اور یہ لوگ ہمیشہ عذاب میں ہی رہیں گے۔ اور اگر یہ اللہ اور نبی پر اور اُس پر جو نبی کی طرف نازل کیا گیا ہے ایمان لاتے تو کافروں کو دوست نہ بناتے لیکن ان میں بہت زیادہ فاسق ہیں۔ (پارہ6، المآئدۃ، آیت:80، 81)

دوست صحیح العقیدہ ہو: دوست کا عقیدہ اگر درست نہ ہو تو دین برباد ہونے کا سبب بن سکتا ہے اسی لیے دوست وہ ہو جس کا عقیدہ سو فیصد درست ہو، چنانچہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:بندہ دوست کے دین پر ہوتا ہے! چاہئے کہ وہ دیکھ لے کسے دوست بنا رہا ہے۔( مشکاۃ،حدیث5019)

ایک دوست دوسرے دوست کی نجات کا ذریعہ ہو: دوستی فقط ساتھ کھانے پینے، ساتھ گھومنے پھرنے کے لیے نہ ہو، بلکہ دوست وہ ہو جو گناہوں سے نفرت اور نیکیوں سے رغبت دلائے، حدیث پاک میں ہے:دوست ایسا ہو جسے دیکھ کر خدا یاد آ جائے،جس کی باتیں سن کر دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف رغبت پیدا ہو جائے۔(مجمع الزوائد، کتاب الزھد،باب ای جلساء خیر، حدیث 17686 ملخصاً)

دوستی اللہ کریم کی رضا کے لیے ہو: ہر کام کا کوئی نا کوئی مقصد ہونا چاہیے، کیونکہ جس کام کا کوئی مقصد نہ ہو وہ لغو و بیکار کے زمرہ میں آ جاتا ہے اسی لیے دوست بناتے وقت یہ نیت ہو کہ میں اس سے اللہ عزوجل کی رضا کے لیے دوستی کر رہا ہوں اور مقصد یہی ہو کہ مل جھل کر نیکی کے کام کریں، امت مسلمہ کی خدمت کریں، ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں کام آئیں، ایک دوسرے کو برائی سے روکیں اور بھلائی کے کاموں میں مدد کریں، اور فرمانِ الٰہی عزوجل”اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو“ کے مصداق بن جائیں۔(پارہ،6،المائدۃ،آیت:2)

سچا دوست: جب انسان خود غرض و مفاد پرست ہو جائے اور صرف اپنے بارے میں سوچے، تب لوگ اسے تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور ایسے شخص سے پھر کوئی دوستی کرنا بھی پسند نہیں کرتا، ایک دوست کو کس طرح ہونا چاہیے! چنانچہ امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ، شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا: تمہارا سچا دوست وہ ہے جو تمہارا ساتھ دے اور تمہارے فائدے کے لیے خود کو نقصان پہنچائے،جب تمہیں گردشِ زمانہ پہنچے تو تمہارا سہارا بنے اور تمہاری حفاظت کے لیے اپنی چادر پھیلا دے۔ (احیاء العلوم (مترجم) ج،2ص،622)

اے اللہ کریم!ہمیں مسلمان نیک متقی صحیح العقیدہ سے خالصتاً اپنی رضا کے لیے دوستی کرنے کی توفیق عطا فرما، ہمیں دوستی کے تمام حقوق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرما، فاسق و فاجر، بد مذہب و کفار سے موالات و دوستی رکھنے سے محفوظ فرما اٰمین! بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


وہ کہ جو وفادار اور مہرباں دوست رکھتا ہے، وہ ابدی سعادت اور جاودانی عمر رکھتا ہے۔

زندگی میں رشتے تو ملتے ہی رہتے ہیں مگر ایک انسانی رشتہ ایسا ہے جس میں ”زندگی“ ملاکرتی ہے اور وہ رشتہ ہے ”دوستی کا رشتہ“ زندگی میں ہر رشتے کی اپنی ضرورت اور اہمیت ہوتی ہےاسی طرح دوستوں کی بھی اپنی ضرورت و اہمیت ہوتی ہے جس کی کمی کو مال و دولت کی آسائشوں سے پورا نہیں کیا جا سکتا۔

اس لئے کہ انسان کا دل فطری طور پر خوشی اور اطمینان کے جذبے پہ پیدا کیا گیا ہے۔ دوست وہ رشتہ ہے جن کے سامنے اٹھنے‘ بیٹھنے‘ ہنسنے‘ بولنے کے اصولوں کا حساب کتاب نہیں رکھنا پڑتا۔ کب بولنا اور کتنا بولنا ہے کمزوریوں کو کیسے انہیں بتانا ہے۔ آنسوں کی نمی کو بہانوں میں کیسے چھپانا ہے جیسے مشکل اور تھکا دینے والے عمل سے گزرنا نہیں پڑتا۔ دوستوں کے ایک مصافحے پر اپنے دل کی ڈور ان کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں آنکھوں کے اشاروں سے الجھن سما دیتے ہیں اور ایک بار گلے لگتے ہی تمام دنیا سے چھپائے ہوئے خوف و الم الف تا ”ی“ سنادیتے ہیں۔

ہمارے آقا و مولا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی دوستی کے بارے میں اہم تعلیمات سے آگاہ کیا ہے ان میں سے ایک حدیث مبارکہ ہے کہ عن أبي سعيد الخدري، أنه سمع نبي الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا تصحب إلا مؤمنا، ولا يأكل بطعامك إلا تقي (سنن الدارمی، كتاب الاطعمہ،باب من كره ان يطعم طعامہ الاتقياً،حديث: 2101 )ترجمہ :صرف مومن شخص کی صحبت اختیار کر،اور تیرا کھانا صرف متقی شخص کھائے۔

لیکن جہاں یہ رشتہ اتنا خوبصورت ہے وہاں اسکے کچھ حقوق بھی ہیں حقوق اس لئے وضع کئے گئے ہیں تاکہ ہمارا یہ دوستی کا رشتہ لازوال رہے اس لیے یقینی بنائیں کہ دوستی رشتے میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ دوستی ایک نازک تعامل ہے جو پیار، احترام، اعتماد اور تفہیم پر مبنی ہوتا ہے۔ یہاں کچھ اہم حقوق پیش کیے جارہے ہیں جو دوستوں کے درمیان احترام، تعاون اور اعتماد کو بڑھانے کا کام کرتے ہیں:

(1) احترام کا حق: دوستی میں احترام کا حق بہت اہم ہے، دوست کو اس کے تجربے، خصوصیات اور آراء کی احترام کرنی چاہیے۔ ان کی عزت کرنا، نہ صرف دوستی کو مضبوط بناتا ہے بلکہ اپنے آپ کو بھی ایک اچھا دوست ثابت کرتا ہے۔

(2) صداقت کا حق: دوستی میں صداقت یعنی سچائی بہت اہمیت رکھتی ہے، دوستوں کے درمیان جھوٹ بولنا یا دوست کو دھوکہ دینا ان رشتوں کو تباہ کر سکتا ہے۔ دوست کے ساتھ ہمیشہ سچائی کے ساتھ پیش آنا دوستی کو مضبوط اور پائیدار بناتا ہے۔

(3) حامی کا حق: ایک سچا دوست ہمیشہ اپنے دوست کا حامی ہوتا ہے، مشکل وقتوں میں اپنے دوست کی ساتھ دینا، ان کا ساتھ نبھانا اور انکی حمایت کرنا ایک اہم حق ہے۔ دوستی میں بے لوث ہونا اور دوست کو آپ کی مدد پر بھروسہ رکھنا بہت اہم ہوتا ہے۔

(4) وقت دینے کا حق: دوستی میں وقت دینا بہت اہم ہے، اپنے دوستوں کے لئے وقت نکالنا، ان سے ملاقات کرنا اور ان کے ساتھ وقت گزارنا دوستی کو مزید مضبوط بناتا ہے۔ دوست کا احترام کرنا اپنے دوستوں کو دوسستی محسوس کروانے کا ایک بہتریں طریقہ ہوتا ہے۔

(5) حل مشکلات: دوستوں کا حق ہوتا ہے کہ آپ ان کی مشکلات کا سامنا کریں اور انہیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر کوئی تنازع یا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو دوستوں کے بیچ صلح و سلامتی برقرار کرنے کا حق بھی ہوتا ہے۔

اﷲ ہم سب کو بہترین دوست عطا فرمائے ہمیں اپنے دوستوں کیلئے بہترین دوست بننے کی ہمت دے اور ہمارے دوستوں کی حفاظت فرمائے اور دنیا کے دوستوں کوجنت کے راستوں کا ہمراہی بنا دے تاکہ وہاں بھی ہم ساتھ رہیں اور ہمیں دوستی ایمانی اور اخلاقی بنیادوں پر قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔


عیب جوئی یہ ایک بری خصلت ہے جو بہت سے لوگوں میں عام طور پر پائی جاتی ہے۔ دوسروں کے اندر عیب تلاش کرنا یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ عیب جوئی سے مراد کسی کے اندر خامیاں تلاش کرنا ہے چاہے وہ جسمانی ہو یا نفسانی، دینی ہو یا دنیاوی اسے زبان سے بیان کرو یا اشارے سے عیب جوئی ہی کہلاتی ہے۔ قراٰنِ مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1)

حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب پر پردہ ڈالتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ پاک اس کے عیب پر پردہ ڈالتا ہے۔ (رواہ ابن ماجہ)

اس لیے ہمیں اپنی زبانوں کو کسی کے عیبوں کو بیان کر کے آلودہ نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ ہر انسان میں عیب ہوتا ہے حتی کہ اس میں آپ بھی شامل ہیں۔ کسی انسان میں اگر کوئی خوبی دیکھو تو اسے بیان کرو، لیکن اگر کسی شخص میں تمھیں خامی مل جائے تو وہاں تمھاری خوبی کا امتحان ہے۔

قراٰنِ مجید میں ایک اور جگہ بھی آیا ہے کہ : ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) یعنی کسی کے عیب تلاش نہ کرو، اس کی ٹوہ میں نہ رہو اور کسی کی جاسوسی نہ کرو۔

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو دیکھ لے اور پھر اس کی پردہ پوشی کرے تو اس کو اللہ پاک اتنا بڑا ثواب عطا فرمائے گا جیسے کہ زندہ درگور کی ہوئی بچی کو کوئی قبر سے نکال کر اس کی پرورش اور اس کی زندگی کا سامان کردے۔

آج کل ہمارے معاشرے میں لوگ عیب جوئی جیسی گناہ کو گنا ہ ہی نہیں سمجھتے۔ اس لیے ہم کسی کے بھی سامنے اس کی برائی بیان کر دیتے ہیں اور اگر کسی شخص کو دوسروں میں عیب نظر نہیں آتا تو وہ خود سے کوئی عیب بنا کر لوگوں کے درمیان بیان کر رہے ہوتے ہیں ۔اس لیے ہمیں اپنے اندر سے اس خصلت کو ختم کرنے کے لیے دوسروں کے اندر عیبوں کو تلاش کرنے کے بجائے اپنے اندر موجود بری خصلتوں کو ختم کر کے ایک اچھا مؤمن بن سکتے ہیں۔


عیب جوئی سے مراد اپنے مسلمان بھائی کے عیوب کی ٹوہ میں رہنا اور پھر اس کے عیوب کو لوگوں میں پھیلانا عیب جوئی کہلاتا ہے۔

ہم ایک انسانی معاشرے میں رہتے ہیں ۔ اور ہر انسان خطا کا پتلا ہے۔ صرف انبیا گناہوں سے پاک ہیں اس کے علاوہ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی کمی رہ ہی جاتی ہے ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے عیوب پر نظر ڈالنے کی بجائے ان کی خوبیوں کی طرف دیکھیں۔ اگر آپ صرف لوگوں میں عیب ہی تلاش کریں گے تو آپ لوگوں میں کبھی بھی عزت نہیں پاسکتے ۔

عام طور پر ہمارے معاشرے میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ پہلی طرح کے وہ لوگ جو صرف لوگوں کی اچھائیوں کی طرف دیکھتے ہیں اور بڑائیوں سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ یہ لوگ بہت خاص ہوتے ہیں۔ در اصل یہ لوگ لوگوں کی خامیوں کو اچھالتے نہیں بلکہ ان سے اپنی اصلاح کرتے ہیں اور اپنی دنیا اور آخرت سنوارتے ہیں، یہ لوگ اس وجہ سے بہت سی بیماروں سے محفوظ رہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر غیبت ، عیب جوئی، الزام تراشی، بہتان تراشی و غیرہ جیسی مذموم برائیوں سے محفوظ رہ جاتے ہیں۔

جبکہ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو صرف اور صرف لوگوں کی خامیوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ وہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کہیں یہ کسی کی غلطی پر مطلع ہوں تو اسے لوگوں میں پھیلائیں۔ اور اگر انہیں کوئی غلطی نہ بھی ملے تو اپنی طرف سے کسی پربہتان لگا کر اسے لوگوں میں ذلیل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس قسم کے لوگ بہت سے برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، مثال کے طور پر غیبت، چغلی، بہتان تراشی، الزام تراشی وغیرہ۔ یہ لوگ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ اور لوگوں کی عزت پر حملہ کرتے ہیں۔ ان دونوں طرح کے لوگوں کی مثال شہد کی مکھی اور عام مکھی کی طرح ہے۔

پہلی قسم کے لوگ جو لوگوں کی اچھائیوں کو دیکھتے ہیں یہ شہد کی مکھی کی طرح ہوتے ہیں۔ جس طرح شہد کی مکھی پھولوں کی خوشبو سونگھتی ہے اور ان کا رس چوستی ہے پھر اس سے شہد تیار کرتی ہے جس میں بہت سی بیماریوں کے لیے شفا ہوتی ہے اسی طرح یہ لوگ بھی اچھائیوں کی طرف دیکھ کر لوگوں میں نفرتیں نہیں پھیلاتے بلکہ محبتوں کو اجاگر کرتے ہیں، دوسرے قسم کے لوگ جو صرف برائیوں کی طرف دیکھتے ہیں ان کی مثال عام مکھی کی طرح جو سارا پاک وصاف بدن چھوڑ کر زخم پریا نجاست پر بیٹھتی ہے جس کا کھانا ناپاک ، پینا نا پاک ۔ بالکل اسی طرح یہ لوگ بھی لوگوں کی اچھائیوں کو چھوڑ کر صرف ان کی برائیوں کی طرف دیکھتے ہیں اور پھر لوگوں کو بد نام کرنے کے لیے اسے معاشرے میں پھیلا دیتے ہیں۔ اصل میں ان لوگوں کو چاہیے کہ اگر عیب تلاش کرنے ہی ہیں تو پھر اپنے عیب تلاش کریں۔ اپنے اندر جھانکیں، اپنے اندر ہی اتنے عیوب ملیں گے کہ لوگوں کی طرف دیکھنے کا وقت بھی نہیں ملے گا۔

قراٰن و حدیث میں عیب جوئی کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1) یہ آیت ان لوگوں کے لیے نازل ہوئی جو صحابۂ کرام پر اعتراضات کیا کرتے تھے۔ (صراط الجنان )

احادیثِ مبارکہ میں عیب جوئی کی مذمت :نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اس کے عیب کھول دے گا اور جس کے عیب اللہ پاک ظاہر کرے وہ مکان میں ہوتے ہوئے بھی ذلیل و رسوا ہو جائے گا۔ (ترمذی، 3/ 446 ،حدیث: 2039 )

پردہ پوشی کے فضائل : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو کسی کا پوشیدہ عیب دیکھے، پھر اسے چھپالے، تو وہ اس شخص کی طرح ہوگا کہ جس نے زندہ دفنائی گئی بچی کو قبر سے نکال کر اس کی جان بچالی۔(مسند احمد، 6 /126،حدیث1733)

ایک مقام پر ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ پاک دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔ (مسلم )


حضرت ابن عمر سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم منبر پر چڑھے پھر بلند آواز سے ندا کی فرمایا اے ان لوگوں کے ٹولو جو اپنی زبان سے ایمان لائے ہو اور ان کے دل تک ایمان نہ پہنچا مسلمانوں کو نہ تو ایذا دو نہ انہیں عار دلاؤ نہ ان کے خفیہ عیوب ڈھونڈھو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کے خفیہ عیوب کی تلاش کرے گا تو اللہ اس کے عیب ظاہر کردے گا اگرچہ اس کے گھر میں ہوں اور اسے رسوا کردے گا اگرچہ وہ اپنی منزل میں کرے۔(ترمذی)

شرح حدیث : یہاں منافق سے مراد منافق اعتقادی ہے ممکن ہے کہ منافق عملی یا دونوں مراد ہوں۔مرقات نے فرمایا کہ اس میں یہاں فاسق بھی داخل ہے کیونکہ آگے جس عمل کا ذکر ہے وہ فساق ہی کرتے تھے۔ جس سے مسلمانوں کو تکلیف ہو وہ کام کرنا حتی کہ راستہ میں کانٹا، پتھر ڈال دینا کہ مسلمانوں کو لگے ان سے سخت کلامی کرنا، مسلمانوں کے وہ گناہ بیان کرنا جن سے وہ توبہ کر چکے ہوں بلکہ ان کی توبہ کا قرآن کریم میں اعلان ہو چکا ہے، مسلمانوں کے خفیہ عیوب کی تلاش میں رہنا بلکہ ان بے عیب صحابہ کرام کو عیب لگانا جن کی بے عیبی پر قرآن مجید گواہ ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ کو ستانا منافقوں کا کام ہے ۔

ابن عباس سے روایت ہے کہ دو شخصوں نے نماز ظہر یا عصر پڑھی اور وہ دونوں تھے روزہ دار پھر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پوری فرمائی تو فرمایا کہ اپنے وضو اپنی نمازیں لوٹاؤ اور اپنے روزوں میں گزر جاؤ (پورے کر لو)اور دوسرے دن ان کی قضا کرو وہ بولے یا رسولَ اللہ کیوں فرمایا: تم نے فلاں کی غیبت کی۔

شرح حدیث : قرآن کریم نے غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانا قرار دیا ہے "اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا"۔اور ظاہر ہے گوشت کھانے خون پینے سے روزہ بھی ٹوٹ جاتا ہے نمازبھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ گناہ نیکیوں کا کمال دور کر دیتے ہیں جیسے نیکیاں اصل گناہوں کا زوال کر دیتی ہیں، نیز غیبت کی وجہ سے غیبت کرنے والے کی نیکیاں مغتاب کو دے دی جاتی ہیں اس کا روزہ نماز مغتاب کو دے دیا گیا یہ بغیر روزہ نماز رہ گیا لہذا اسے دوبار ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔


عیب جوئی کی تعریف: لوگوں کی خفیہ (چھپی ہوئی) باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا عیب جوئی کہلاتا ہے ۔ (ظاہری گنا ہوں کی معلومات ،ص73)

عیب جوئی کا دنیوی و اخروی انجام: یہ بڑی ہی چھچھوری حرکت اور خراب عادت ہے۔ دنیا میں اس کا انجام بدنامی اور ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں اس کی سزا جہنم کا عذاب ہے ایسا کرنے والوں کے کانوں اور آنکھوں میں قیامت کے دن سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔ (جنتی زیور ،ص123)

عیب جوئی کی چند مثالیں : کسی سے یہ پوچھنا رات دیر تک جاگتے رہتے ہو فجر بھی پڑھتے ہویا نہیں، آپ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں ؟ نیز آپ کے والد صاحب نمازی ہیں یا نہیں؟ ، تم پوری زکوٰۃ نکالتے ہو یا نہیں ؟ رمضان کے مہینے میں کسی سے پو چھینا : واہ بھئی! آج بڑے فریش یعنی تازہ دم لگ رہے ہو روزہ بھی رکھا ہے یا نہیں؟

عیب جوئی کے متعلق احکام : مسلمان کی عیب جوئی (یعنی اس کے عیب تلاش کرنا) حرام ہے۔ (ظاہری) گناہوں کی معلومات ص: 72) (2) بے دین، مفسدین (فساد کرنے والوں) کے حالات چھپ کر دیکھنا سننا تا کہ ان کے فساد کی روک تھام ہو سکے ، جائز ہے۔ (3) نوکر رکھنے ، شراکت داری (یعنی پارٹنر شپ کرنے ) یا کہیں شادی کا ارادہ ہے تو حسبِ ضرورت معلومات کرنا گناہ نہیں۔ (4) بلا مصلحت شرعی کسی مسلمان کا عیب معلوم کرنا گناہ و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔( نیکی کی دعوت ،ص397) (5) مسلمان کو چاہیے اول تو لوگوں کے عیوب جاننے سے بچے اگر کوئی بتانے لگے تب بھی سننے سے خود کو بچائے ۔ بالفرض کسی طرح کا عیب نظر آ گیا یا معلوم ہو گیا ہو تو اس کو دبا دیجئے۔ بلا مصلحت شرعی ہر گز کسی پر ظاہر نہ کرے۔ (نیکی کی دعوت، ص: 398)

عیب جوئی کے متعلق فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : اے لوگوں کے وہ گروہ !جو اپنی زبان سے ایمان لائے اور دل سے ایمان نہ لائے مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور نہ ان کے عیوب تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کے عیوب تلاش کرتا ہے اللہ پاک اس کے عیوب ظاہر کرتا ہے اور جس کے عیوب اللہ پاک ظاہر فرماتا ہے ، اسے رُسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو۔ (ابو داؤد،کتاب الادب، باب فی الغییبہ، 4/354حدیث:4880)

عیب جوئی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب: بغض و کینہ ،حسد،چغل خوری کی عادت ( ایسا شخص ایک دوسرے تک باتیں پہنچانے کیلئے لوگوں کے عیب تلاش کرنے میں لگا رہتا ہے ) ۔


اسلام کی دی گئی تعلیمات میں آخرت سنوارنے کے ساتھ ساتھ دنیا سدھارنے اور معاشرے کو بہتر بنانے کے روشن اصول بھی موجود ہیں۔ انہیں میں سے ایک اصول مسلمان کی عزت کرنا ہے جس کے لئے بطورِ خاص گالی گلوچ ، بہتان تراشی، غیبت اور عیب جوئی وغیرہ سے ممانعت اسلامی شریعت کی ہدایت میں شامل ہیں۔ عیب جوئی کا مرض معاشرے میں وائرس کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ پاک نے عیب جوئی سے متعلق قراٰنِ پاک میں فرمایا : ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) اللہ پاک نے دوسرے کے عیبوں کو تلاش کرنے سے واضح طور پر منع فرمایا ہے: صدر و الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے ہوئے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے۔(خزائن العرفان میں 863)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اس کے عیب کھول دے گا اور جس کے عیب اللہ کریم ظاہر کرے وہ مکان میں ہوتے ہوئے بھی ذلیل و رسوا ہو جائے گا۔ ( مرآۃ المناجيح ، مسلم، مسند احمد )مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ الله علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : یہ قانونِ قدرت ہے کسی کو جو بلا وجہ بدنام کرے قدرت اسے بدنام کر دے گی۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: غیبت کرنے والوں ، چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو الله پاک قیامت کے دن کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔

عیب جوئی کے نقصانات اور بچنے کے طریقے : عیب جوئی اللہ اور اس کے محبوب کو سخت ناپسند ہے عیب جوئی بد اخلاقی کو جنم دیتی ہے اور اس کا علم سلب کر لیا جاتا ہے اور جہالت غالب آجاتی ہے۔ عیب جوئی کے دنیوی اور اخروی نقصان پر غور کیجئے، نیک اور خوفِ خدا رکھنے والے لوگوں کی محبت میں وقت گزاریے۔

اللہ پاک ہمیں دوسروں کے عیبوں کو چھپانے کی توفیق عطا فرمائے اللہ پاک ہمیں عیب جوئی جیسی قبیح عادات سے محفوظ رکھتے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1) ایک اور مقام میں اللہ پاک نے فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔(پ26،الحجرات:12)

حدیثِ پاک حضرت راشد بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میں ایسی عورتوں اور مَردوں کے پاس سے گزرا جو اپنی چھاتیوں کے ساتھ لٹک رہے تھے، تو میں نے پوچھا: اے جبرئیل! علیہ السّلام ،یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے عرض کی: یہ منہ پر عیب لگانے والے اور پیٹھ پیچھے برائی کر نے والے ہیں اور ان کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ (پ30، الھمزۃ:1)

آیت مبارکہ ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے ہوئے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے۔ ایک عبرت ناک حدیث پاک : حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے وہ لوگو ! جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لئے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ پاک اس کے عیب ظاہر فرمادے گا اور جس کے اللہ پاک عیب ظاہر کرے گا۔ اس کو رُسوا کردے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔(ابو داؤد، 4/354، حدیث:4880)

اس سے معلوم ہوا ہے کہ مسلمان کی غیبت اور عیب تلاش کرنا منافق کا شعار ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت اور رسوائی ہیں کیونکہ جو شخص کسی دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہیں ، یقیناً اس میں بھی کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہوگا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ معاشرے میں ذلیل اور خوار ہو جائے۔ لہذا ! عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ان کی اس حرکت کی بنا پر نہیں اللہ پاک ان کے وہ پوشیدہ عیوب ظاہر نہ فرمادے جس سے وہ ذلت اور رسوائی سے دوچار ہو جائیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کو بھول جاتا ہے۔ (شعب ایمان) اللہ پاک ہمیں دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے بچنے، اپنے عیبوں کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو اپنے مسلمان بھائی کی عیب پوشی کرے اللہ پاک قِیامت کے دن اس کی عیب پوشی فرمائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب ظاہِر کرے اللہ پاک اُس کا عیب ظاہِر فرمائے گا یہاں تک کہ اُسے اُس کے گھر میں رُسوا کر دے گا۔(ابن ماجہ، 3/219،حدیث:2546 )

عیب ڈھونڈنے کی مثالیں ملاحظہ ہو: (1)آپ کی بیوی شریف تو ہے نا ؟(2) لڑتی تو نہیں (یہی سوالات عورتوں میں شوہر کے بارے میں عیوب کی ٹٹول والے ہیں) (3) لڑاکی تو نہیں ؟ (4) روٹی دیتی ہیں یا نہیں (5) اپنے بیٹے کے کان تو نہیں بھرتی ؟ (6) اُس دن فُلاں کے گھر سے تیز گفتگوکی آواز آ رہی تھی کو ن کون لڑ رہے تھے (7) فُلاں کو تنظیمی ذِمے داری سے ہٹادیا، کیا اس کا کردار کمزور تھا؟ (8) فلاں ڈاکٹر نے صحیح طرح چیک بھی کیا یا مفت میں فیس وصول کرلی؟

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تجسس نہ کرو اور خبریں معلوم نہ کرو، اور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے کی مخالفت نہ کرو اور سب اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔ (بخاری شریف)


جنت میں داخل ہونے کا سبب : حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے مروی ہے سرکارِ دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اپنے بھائی کا عیب دیکھ کر اس کی پردہ پوشی کردے تو وہ جنَّت میں داخِل کردیا جائے گا۔(مسند عبد بن حمید، ص 279 ،حدیث: 1985)

اَوروں کےعیب چھوڑ نظر خوبیوں پہ رکھ

عیبوں کی اپنے بھائی مگر خوب رکھ پرکھ

چھپی ہوئی باتوں کو مت نکالو : فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مسلمانوں چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ پاک اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی اللہ پاک ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کردے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، 4/354، حدیث:4880)

اے عاشقان رسول ! کسی مسلمانوں کے عیبوں کی ٹٹول نہیں کرنی چاہیے ۔الله پاک پارہ 26 سورۃُ الحجرات آیت نمبر 12 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12) حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے ہوئے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے۔(خزائن العرفان میں 863)

جہنم کے طبقات میں چیخوں کی آواز: جو چیز آخرت کیلئے جس قدر اہم ہوگی شیطان اس قدر اس کے پیچھے لگے گا۔ لہذا مسلمان کو مسلمان کی عیب پوشی سے روکنے کیلئے پورا زور لگا دیتا ہے اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت مسلمانوں کے عیب تلاش اور غیبتوں میں مشغول ہے۔ حضرت عیسٰی روح الله علیہ السّلام فرماتے ہیں: کتنے ہی صحت مند بدن ، خوبصورت چہرے اور میٹھا بولنے والی زبانیں کل جہنم کے طبقات میں چیخ رہے ہوں گے۔ (مکاشفۃ القلوب ،ص152)

عیب تلاش کرنے کا انجام : مسلمانوں کی غیبت کرنا اور ان کے عیب تلاش کرنا منافق کا شعار ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت و رسوائی ہے کیونکہ جو شخص کسی دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہے یقیناً اس میں بھی کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہوگا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ معاشرے میں ذلیل و خوار ہو جائے ۔ لہذا عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ان کی اس حرکت کی بنا پر کہیں اللہ پاک ان کے وہ پوشیدہ عیوب ظاہر نہ فرمادے جس سے وہ ذلت و رسوائی سے دو چار ہو جائیں۔ (تفسیر صراط الجنان، سورۃُ الحجرات، آیت 12)

کسی کی خامیاں دیکھیں میری آنکھیں

سنیں نہ کان بھی عیبوں کا تذکر یا رب

اپنے عیبوں کو جاننا : حضرت بی بی رابعہ عدویہ رحمتہ اللہ علیہا فرماتی تھیں: بندہ جب اللہ پاک کی محبت کا مزہ چکھ لیتا ہے اللہ پاک اسے خود اس کے اپنے عیبوں پر مطلع فرما دیتا ہے پس اس وجہ سے وہ دوسروں کے عیبوں میں مشغول نہیں ہوتا بلکہ اپنے عیبوں کی اصلاح کی طرف متوجہ رہتا ہے۔(تنبیہ المغترین، ص 197)

الله پاک ہمیں دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے بچنے ، اپنے عیبوں کو تلاش کرنے اور اپنے عیبوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

عیب میرے نہ کھول محشر میں

نام ستار ہے تِرا یا رب!