محمد عبد الغفور علوی (درجہ خامسہ مرکزی
جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی، پاکستان)
دوستی ایک اچھا اور بہت اہم رشتہ ہے، اکثر اوقات زندگی میں
اس کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس دنیا کی ہر چیز موجود ہو لیکن
اچھا دوست نہ ہو تو اس کو زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور
وہ زندگی میں خوش نہیں رہ سکتا۔ جس کا اچھا دوست ہو تو وہ اس کے ساتھ اپنے غموں
اور خوشیوں کو شیئر کر سکتا ہے۔ دوست تو کوئی بھی ہو سکتا ہے لیکن دوستی اسی سے
کرنی چاہیے جو نیک اور متقی ہو تاکہ ہمیں دنیاوی فوائد کے ساتھ ساتھ اُخروی فوائد
بھی حاصل ہوں ۔ جس طرح ماں ، باپ عزیز و اقربا وغیرہ کے حقوق ہیں اسی طرح دوستوں
کے بھی کچھ حقوق ہیں آئیے ان میں سے چند ملاحظہ کرتے ہیں:
دعا کرنا : دوستوں کے حقوق میں سے ہے کہ اس کی زندگی اور اس کے مرنے کے بعد بھی دعا کرے۔
دوست کے لیے اس کی زندگی اور مرنے کے بعد ہر اس چیز کی دعا کرے جو اپنے لیے پسند
کرتا ہو۔ حدیث پاک میں اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کے لیے دعا کے بارے میں
حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد ہے :جب آدمی اپنے بھائی کے لیے اس کی غیر
موجودگی میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی اس کی مثل ہو۔ (صحیح
مسلم، حدیث : 2732)
دوست کے
اہل و عیال کی خبر گیری رکھنا : دوست کی موجودگی
و غیر موجودگی میں اس کے بچوں اور گھر والوں کی دیکھ بھال کرنا بھی دوستوں کے حقوق
میں سے ہے۔ بعض اسلاف کرام رحمہم اللہ السلام اپنے دوست کی وفات کے بعد 40 سال تک
ان کے اہل وعیال کی خبر گیری کرتے ، ان کی حاجات پوری کرتے اور روزانہ ان کے پاس
جاتے اور اپنا مال ان پر خرچ کرتے تھے۔
مالی مدد کرنا : جب دوست مالی لحاظ سے کمزور ہو تو اس کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اپنے مال کے
ذریعے اس کی مدد کی جائے۔ مال کے ذریعے اپنے دوست کی مدد یا تو اس درجہ کی ہو کہ
اپنے دوست کو خود پر ترجیح دی جائے اور اس کی حاجت کو اپنی حاجت پر مقدم رکھا جائے
یا اس درجہ کی ہو کہ دوست کو وہی مرتبہ دیا جائے جو خود کو دیتا ہو یا اس درجہ کی
ہو کہ اپنے دوست کو غلام یا خادم کا مرتبہ دیا جائے اور یہ بہت ادنی درجہ ہے، دوست
کی ضروریات اپنے مال سے پوری کی جائیں اسے سوال کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اگر
سوال کرنے پر مجبور کیا تو یہ دوست کے حق میں بہت بڑی کوتاہی شمار کی جائے گی۔
خاموش رہنا : دوست کے عیوب اور نا پسندیدہ باتیں بیان کرنے سے بھی خاموش رہا جائے۔ خاموش
رہنے کے چند مواقع ہیں: (1) دوست کی موجودگی و عدم موجودگی میں اس کے عیوب بیان
کرنے سے زبان کو روکے (2) اس کی بات رد نہ کرے (3) ایسی باتیں نہ کرے جس سے وہ
پریشان ہو وغیرہ۔
اچھے نام سے پکارے:دوست کا حق یہ بھی ہے کہ اس کی موجودگی اور عدم موجودگی میں اسے اچھے نام سے
یاد کیا جائے ، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقی اعظم رضی اللہ عنہ نے تین ایسی باتیں
ارشاد فرمائیں کہ جن کو اپنانے سے دل میں مسلمان بھائی کی محبت بڑھتی ہے ان میں سے
ایک یہ بھی ہے کہ اسے پسندیدہ نام سے پکارا جائے ۔
ہم اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں نیک و پرہیز گار دوست
عطافرمائے اور ان کے حقوق جاننے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فر مائے آمین بجاہ خاتم
النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم