اچھے اخلاق اپنانے کے بارے میں قرآن پاک ، احادیث
اور بزرگانِ دین کے کئی اقوال ہیں جس طرح
قرآن پاک کے پارہ 24 سورة حم سجدہ آیت نمبر 34 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ترجمہ کنزالالعرفان: برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو۔
ارشاد فرمایا تم برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کر
دو، مثلا غصے کو صبر سے، لوگو کی جہالت کو حلم سے تو ان خصلتوں کا نتیجہ یہ ہوگاکہ
دشمن دوستوں کی طرح تم سے محبت کرنے لگیں گے، جیسا کہ ابوسفیان آقا علیہ السلام سے
عدوات کرتے تھے اس کے باوجود آقا علیہ ا لسلام نے ان کے ساتھ نیک سلوک کیا اور ان
کی صاحبزادی کوشرفِ زوجیت کا شرف عطا فرمایا،
تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو سفیان تاجدار رسالت سے سچی محبت کرنے والے اور آپ کے
جاں نثار صحابی بن گئے۔
میٹھے اسلامی بھائیوں دیکھا آپ نے کہ آقا علیہ
السلام کے اخلاقِ حسنہ کافائدہ یہ ہوا کہ ابو سفیان آپ سے محبت کرنے والے اور جان
نثار صحابی بن گئے۔اور اسی طرح غزوہ احد میں
آقا علیہ السلام کے سامنے والے مبارک دانت شہید ہوتے اور آپ کا چہرہ انور لہولہان ہوگیا تو عرض کی گئی کہ یارسول
اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ ان کافروں کے خلاف دعا فرمائیں، آقا دوجہاں صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کمال صبر کامظاہرہ
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے طعنے دینے والا اور لعنت کرنے
والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ مجھے دعوت دینے والا اور رحمت فرمانے والا بنا کر بھیجا
ہے، پھر آپ نے دعا فرمائی۔ اے اللہ عزوجل میری قوم کو دینِ اسلام کی ہدایت دے،
کیونکہ وہ مجھے نہیں جانتے ۔
دیکھا آپ نے کہ آقا علیہ السلام کس طرح اخلاق
حسنہ ، حلم، شفقت، محبت والے تھے تو اسی طرح اچھے اخلا ق کے بہت فوائد ہیں، جس طرح اچھے اخلاق والے لوگ
پسند کرتے ہیں، اس سے محبت کرتے ہیں اس کی
تعریف کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ مجھے بھی اس جیسا بنادے اور ایک فائدہ
یہ بھی ہے کہ اچھے اخلاق والے سے رب عزوجل راضی ہوتا ہے۔
اسی طرح غصے کے وقت خود پر قابو پانا بھی اچھے
اخلاق میں سے ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے، کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، طاقتو روہ نہیں
جو لوگوں کو بچھاڑ دے صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
پھر طاقت ور کون ہے؟تو آقا علیہ السلام نے
ارشاد فرمایا: وہ جو غصے کے وقت اپنے اپ کو قابو میں رکھے۔