صلہ رحمی سے مراد ہے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا، آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنا، دکھ، درد، خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنا، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنا، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا۔ الغرض اپنے رشتہ کو اچھی طرح سے نبھانا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا، ان پر احسان کرنا، ان پر صدقہ و خیرات کرنا، اگر مالی حوالے سے تنگدست اور کمزور ہیں تو ان کی مدد کرنا اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا صلہ رحمی کہلاتا ہے۔

صلہ رحمی میں اپنے والدین، بہن بھائی، بیوی بچے، خالہ پھوپھی، چچا اور ان کی اولادیں وغیرہ یہ سارے رشتہ دار صلہ رحمی میں آتے ہیں۔ اپنے والدین کے دوست احباب جن کے ساتھ ان کے تعلقات ہوں، ان سب کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ جب ان رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھا جائے گا، ان کے حقوق پورے نہیں کیے جائیں گے، ان کی مدد نہیں کی جائے گی تو یہی قطع رحمی کہلاتی ہے۔ یعنی اپنے رشتہ داروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ- وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں۔(البقرة)

یہ حکم امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی لازم کیا گیا اور صلہ رحمی کرنے والوں سے آخرت میں اُس حسین گھر کا وعدہ کیا گیا ہے جو گل و گلزار سے سجا ہوگا۔ ارشادِ ربانی ہے:

وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِؕ(۲۱) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور وہ کہ جوڑتے ہیں اسے جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے رب سے ڈرتے اور حساب کی برائی سے اندیشہ رکھتے ہیں۔(الرعد،21)

اور قطع تعلق کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِۙ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ(۲۵)تَرجَمۂ کنز الایمان:اور وہ جو اللہ کا عہد اس کے پکے ہونے کے بعد توڑتے اور جس کے جوڑنے کو اللہ نے فرمایا اسے قطع کرتے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کا حصہ لعنت ہی ہے اور ان کا نصیبہ برا گھر۔(الرَّعْد،25)

مزید یہ کہ قطع رحمی کو فساد فی الارض جیسے جرم کے ساتھ ذکر کر کے اسے منافقت کی علامت قرار دیا اور اس کے مرتکبین کی تہدید کرتے ہوئے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں