درود شریف کی
فضیلت:
شیخ طریقت
امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوالبلال محمد الیاس عطار قادر ی
رضوی ضیائی دامت
برکاتہم العالیہ اپنے رسالے کالے
بچھو کے صفحہ ۱ پر نقل کرتے ہیں۔
سرکار مدینہ
راحت قلب وسینہ صلی
اللہ تعالیٰ عیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا، اے لوگو بے شک بروز قیامت اس کی دہشتوں اور حساب کتاب سے جلد نجات پانے
والا شخض وہ ہوگا جس نے تم میں سے مجھ پر
دنیا کے اندر بکثرت درود شریف پڑھے ہوں گے۔
اہلِ ایمان کے
ثواب اور انعامات کے لیے اللہ تعالیٰ
ایک مکان بنایا ہے جس میں تمام قسم کی جسمانی روحانی لزتوں کے وہ سامان مہیا
فرمائے ہیں جو شایان ہفت اقلیم، ساری
کائنات کے فرمانراؤں اور حکمرانوں کے خیال
میں نہیں آسکتے اسی کا نام جنت و بہشت ہے۔
جنت میں نجاست
، گندگی ، پاخانہ پیشاب، تھوک وغیرہ حتی کہ کان کا میل ، بدن کا میل اصلا نہ ہوں
گے، ایک خوشبودار فرحت بخش پسینہ نکلے گا اور ایک خوشبودار اور فرحت بخش ڈکار آئے
گی اور سب کھانا ہضم ہوجائے گا، ہر وقت زبان سے تسبیح و تکبیر بالقصد اور بلا
قصدمثل سانس کے جاری ہوگی باہم ملنا چاہیں گے ایک کا تخت دوسرے کے پاس چلا جائے گا۔
جنت میں کم از
کم ہر شخض کے سرہانے میں ہزار خادم کھڑے ہو نگے، جنتیوں کے نہ لباس پرانے پڑیں گے
اور نہ ان کی جوانی فنا ہوگی اور اگر مسلمان اولاد کی خواہش کرے گا تو اس کا حمل وضع اورعمریعنی
تیس سال کی خواہش کرتے ہی ایک ساعت میں ہوجائے گی، جنت میں نیند نہیں کہ نیند ایک
قسم کی موت ہے اور جنت میں موت نہیں۔
جنت میں چار دریا ہیں ایک پانی کا دوسرا شہد کا تیسرا دودھ کا ، اور چوتھا پاکیز ہ شراب کا پھر
ان میں سے نہریں نکل کر ہر ایک جنتی کے مکان میں جارہی ہیں، جنت میں جنتیوں کو ہر
قسم کے لذیذ سے لذیذ کھانے ملیں گے اور جو چاہیں گے فورا ًان کے سامنے آجائے
گا۔
جنت میں سو
درجے ہیں اور ہر درجے کی وسعت اتنی ہے کہ اگر تمام عالم ایک درجہ میں جمع ہو تو سب کے لیے وسیع ہو،اور جگہ باقی رہے، جنت میں قسم
قسم کے جواہر کے محل ہیں، ایسے صاف و شفاف کہ اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا اندر سے دکھائی دے، جنت کی دیواریں سونے چاندی کی اینٹوں اور مشک کے گارے
سے بنی ہیں، زمین زعفران کی اور کنکریوں کی جگہ موتی اور یاقوت ہیں۔
جنت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایمان دار بندوں کے لیےانواع واقسام کی
ایسی نعمتیں جمع فرمائی ہیں جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی
آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا تو ان کا وصف پوری طرح بیان میں نہیں آسکتا۔ اللہ تعالیٰ عطا فرمائے تو وہیں ان کی قدر
معلوم ہوگی۔