جنت کیسی ہے ؟

Tue, 2 Jun , 2020
3 years ago

انسان کو اللہ جل جلالہ نے اپنی عبادت کے لیے دنیا میں بھیجا کہ میرا بندہ دنیا میں کیسے عمل کرتا ہے اور کیا میرا بندہ میری عبادت و ریاضت کے ذریعے جنت کا حقدار بنتا ہے اور جب میرا بندہ میری عبادت و ریاضت کے ذریعے میری بنائی ہوئی جنت کو پا لے گا تو میرے بندہ مومن کو جنت میں کیسی نعمتیں ملیں گی تو اللہ جل جلالہ انہیں قرآن مجید میں ارشاد فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِیْمَانِهِمْۚ-تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(۹)

تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کا رب ان کے ایمان کے سبب انھیں راہ دے گا ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی نعمت کے باغوں میں جنت کا سبب ۔

ابو عبد اللہ جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام سے سوال کیا اور عرض کی کہ آپ کیا فرماتے ہیں کہ اگر میں فرض نمازیں ادا کروں رمضان کے روزے رکھوں حلال کو حلال جانوں اور حرام کو حرام سمجھوں اس پر کسی چیز کی زیادتی نہ کروں تو کیا میں جنت میں داخل ہوجاؤں گا آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا (ہاں) اس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے ( اربعین نووی حدیث نمبر 22 )

جنت کی نعمتیں کیا ہیں؟

1 ۔جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں سو برس تک تیز گھوڑے پر سوار چلتا رہے اور ختم نہ ہوں(صحیح مسلم ح 2827 اور 2828 ص ن 1517)

2 ۔جنت کی دیواریں سونے اور چاندی کی اینٹوں اور مشق کے گارے سے بنی ہیں ایک اینٹ سونے کی اور ایک چاندی کی زمین زعفران کی کنکریوں کی جگہ موتی اور یاقوت( سنن دارمی ح2821 ص 429 )

3۔جنت میں چار دریا ہیں ایک پانی کا دوسرا دودھ کا تیسرا شہر کا اور چوتھا شراب کا ان سے نہریں نکل کر ہر ایک کے مکان میں جاری ہیں (احمد بن حنبل 20072 ج 7 ص 242 )

4۔ کم سے کم ہر شخص کے سرہانے دس ہزار خادم کھڑے ہونگے خادموں میں سے ایک ایک کے ہاتھ میں چاندی کا پیالہ دوسرے ہاتھ میں سونے کا اور ہر پیالے میں نئےنئے رنگ کی نعمتیں ہوں گی(الترغیب والترھیب ج 4 ص 291)

5 ۔پہلا گروہ جو جنت میں جائے گا ان کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودھویں رات کے چاند اور دوسرا گروہ جیسے کوئی نہایت روشن ستارہ جنتی سب ایک دل کے ہونگے ان کے آپس میں کوئی اختلافات و بغض نہ ہوگا ان میں ہر ایک کو حورعین میں کم سے کم دو بیبیاں کہ ستر ستر جوڑے پہنے ہوں گی پھر بھی ان لباسوں اور گوشت کے باہر سے ان کی پنڈلیوں کا مغز دکھائی دے گا جیسے سفید شیشے میں شراب سرخ دکھائی دیتی ہے (صحیح بخاری ح 3254 جلد 2 ص 393)

6۔ادنٰی جنّتی کے لئے 80 ہزار خادم اور 27 بیبیاں ہوں گی اور ان کو ایسے تاج ملیں گے کہ اس میں کا ادنیٰ موتی مشرق و مغرب کے درمیان روشن کردے (سنن ترمذی ح 2553 جلد 4 ص 254 )

7۔ایک روایت میں ہے کہ ان کے پاس نہایت اعلی درجے کی سواریاں اور گھوڑے لائے جائیں گے اور ان پر سوار ہو کر جہاں چاہیں گے جائیں گے (سنن ترمذی ح 2553 ج 4 ص 244)

8۔اس میں قم قم کے جواھر کے محل ہوں گے ایسے صاف وشفاف کے اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا اندر سے دکھائی دے گا (الترغیب والترھیب ح 27 جلد 4 صفحہ 281)

9۔جنتیوں کو جنت میں ہر قسم کے لذیذ سے لذیذ کھانے ملیں گے جو چاہیں گے فوراً ان کے سامنے موجود ہوگا(تفسیر ابن کثیر ج 8 ص 162 )

جیسے کہ قرآن شریف میں ارشاد فرمایا وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا(۲۱)

ترجمہ کنزالایمان : اورانہیں ان کے رب نے ستھری شراب پلائی

10۔وہاں کی شراب دنیا کی سی نہیں جس میں بدبو اور کرواہٹ اور نشہ ہوتا ہے اور پینے والے بے عقل ہو جاتے ہیں آپے سے باہر ہوکر بے ہودہ بکتے ہیں وہ پاک شراب ان سب باتوں سے پاک و منزہ ہے جیسے کہ قرآن پاک میں ہے پارہ 26 ,محمد, 25 وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ

ترجمہ کنزالایمان : اور ایسی شراب کی نہریں ہیں جس کے پینے میں لذت ہے

جنّت کا حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ماتحت ہونا:

اللہ جل جلالہ نے ارشاد فرمایا : اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱)

تَرجَمۂ کنز الایمان: اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں (پ,30سورہ کوثر, 1 )

(ترجمہ کنزالایمان : اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرماٸیں

اس آیت میں اللہ جل جلالہ نے اپنے محبوب کی خوبیوں میں سے ایک خوبی جنت کی ہے جو حضور صلی علیہ السلام کے ماتحت ہے اور حضور علیہ السلام کا دس عشرہ مبشرہ صحابیوں کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت عطا فرمانا یہ ماتحت کی بہت بڑی دلیل ہے اور کسی کو دی وہ چیز جاتی ہے جو بندہ کی خود ملکیت میں ہو اس لئے تو حضور علیہ السَّلام عشرہ مبشرہ صحابیوں کو جنت عطا فرمانا۔

اسی لئے تو اعلی حضرت علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں

بچا جو تلووں کا ان کا دھوون بنا وہ جنت کا رنگ و روغن

جنھوں نے دولھا کی پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نور کے تھے