کسی بھی معاشرہ کی تکمیل و تعمیر کے لیے اصلاح کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں گرچہ اصلاح ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے مگر عموما اصلاح کے معنی سمجھانے کے ہی لیے جاتے ہیں ۔ قرآن کریم فرقان حمید میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے ۔ ترجمہ کنزالایمان ،
اور سمجھاو کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔
لفظ ،"اصلاح" اگر چہ بذات خود ایک وسیع مفہوم رکھتا ہےمگرسمجھنے کے لیے اصلاح کو دو بنیادی اقسام میں
تقسیم کیا جاسکتا ہے انفرادی و اجتماعی اصلاح ۔ اصلاح انفرادی ہو یا
اجتماعی آغاز خود سے ہی ہوتا ہے کیونکہ ایک
خوبصورت معاشرہ کی تشکیل فرد سےہی ہوتی
ہے۔ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ انسان کو معاشرے کی اصلاح کی بھی بھرپور کوشش
کرنی چاہیے اور اس کی بنیاد مجھے اپنی اور
ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے بنتا ہے۔ قرآن کریم فرقان حمید میں کئی مقامات پر اللہ
تبارک وتعالی مومنین کو دوسروں کو نیکی کا حکم اور برائی سے
روکنے کا حکم دیتا ہے ۔ اللہ رب العزت کی بابرکت کتاب قرآن مجید فرقان حمید میں پرودگار نے اپنے انبیاکرام کو اپنی اپنی امتوں کی اصلاح کے لیے حکم ارشاد فرماتا ہے :
جیساکہ سورہ مریم کے تیسرے رکوع میں اصلاح کا
حکم دکھائی دیتا ہے اور سورہ ھود میں
مختلف انبیاکرام علیھم السلام بالخصوص حضرت شعیب علیہ
السلام کا اپنی امت کو انداز تبلیغ و اصلاح اس بات کا
عکاس دکھائی دیتا ہے کہ کم وبیش تمام انبیاٗ کی تعلیمات میں اصلاح معاشرہ کی تصویر
دکھائی دیتی ہے۔
اور خاتم النبین رحمت
للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ِ ظاہری فرمانےکے بعد اصلاح کا عظیم فریضہ اس امت کو
عطا کردیا گیا چنانچہ سورہ آل عمران میں
ارشاد باری تعالی ہے : تم بہتر ہو ان
امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے
ہو ۔ یعنی کہ اس امت کے دیگر امتوں کے مقابل برتری کے
اسباب میں ایک سبب یہ بھی ہوا کہ یہ برائی
سے روکتے یعنی لوگوں کی اصلاح کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ چونکہ آج نبوت کا دروازہ تو
بند ہوچکا ہے اس لیے اب اصلاح کا عظیم فریضہ
اسی امت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم نے سرانجام دینا ہے لہذا اس امت کے علماکرام
، محدثین ، مشا ئیخ عظام ، مصنفین ،مفکرین،
اور مقررین اپنے علم ، فیض ، فکر ، تحریر اور تقریر سے دنیا کی اصلاح کافریضہ تاقیامت
سرانجام دیتے رہیں گے۔
اس ضمن میں احادیث مبارکہ
ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں جیسا
کہ ’’ تم میں سےجوبھی برائی دیکھے تووہ
اسے اپنے ہاتھ سے روکے اگر اس کی طاقت نہ ہوتوزبان سے روکے اوراگر اس کی بھی طاقت
نہیں تودل میں برائی کو برا جانےاوریہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘ (مسلم شریف )
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ
اپنے اندر انفرادی اور اجتماعی اصلاح کے پہلو سمیٹے ہوئے ہے اسکے بعد مرشدی امیر اہل سنت دامت
برکاتہم العالیہ نے جو معاشرہ کی اصلاح کابیڑہ اٹھایا اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں اپنی
اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کے لیے قرآن و سنت سے رہنمائی لینا چاہئے۔