اصلاح کے معنی درست کرنے کے ہیں یعنی کسی میں
خامیاں یا برائیاں دور کرنا اور اسے صحیح راستے پر لانا۔
انداز ،طریقہ:
ہمیں کسی کی اصلاح کرنے کے لیے ایسا طریقہ اختیار کرنا
چائیے اور ایسے لب ولہجہ میں نرمی ہونی
چاہیے ،پیار و محبت سے اصلاح کرنی چاہیے تا کہ بات دل میں اتر جائے۔ اور سمجھنے
والا سمجھ بھی جائے اور عمل بھی کرے ۔اور ہر نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے، غصہ
اور تنقید سے اصلاح کبھی نہیں ہو سکتی ہمیشہ اصلاح محبت میں کرنی چاہیے محبت سے ہر
بات منوائی جاتی ہے نہ کہ غصے سے۔ ہمیں اگر اصلاح کا طریقہ دیکھنا ہے تو ہم سیرت
مصطفٰی صلی
اللّٰہ علیہ وسلم کو پڑھ کر اس پر
عمل کر کے دوسروں کی اصلاح کرنی چاہیے۔
محفل میں اصلاح:
کسی بھی محفل میں کسی ایک بچے کو پکڑ کر اس کی اصلاح
کرنے بیٹھ جانا اصلاح نہیں کہلائے گئ۔وہ سب کے سامنے احساس کمتری کا شکار ہو سکتا
ہےاکیلے میں بھی اصلاح کی جا سکتی ہے اگر محفل میں اصلاح کرنی ہے تو سب کی اصلاح
کرنی چاہیے۔ اصلاح کرنے کا انداز بھی ایسا ہونا چاہیے کہ سامنے والا یہ نہ محسوس
کریں کہ سب دیکھانے کے لیے ہے اپنا نام بنانے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔ اللّہ پاک کی رضا کے لیے سب کی اچھی اصلاح کرنی چاہیے۔
اور نیک اصلاح کرنی چاہیے اور ان سب کی لیے دعا بھی کریں کہ اللّہ پاک ہم سب کو اصلاح کرنے کی توفیق دے۔اپنے لہجے میں نرمی
اختیار کرنی چاہیے۔ہر بات کو مسکرا کر کرنا چاہیے ۔
گھر میں بچوں کی اصلاح:
اکثر یوں ہوتا ہے بچے گھروں سے بیزار ہو جاتے ہیں اور وہ
اپنے دوستوں سے زیادہ مل جل جاتے ہیں۔دوستوں کے پاس
اس لئے جاتا ہے کہ دوست اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں کہ تم بالکل ٹھیک ہو ۔
گھر میں والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی ہر بات
توجہ سے سننے اور جہاں وہ غلط ہوں ان کی اصلاح کریں۔گھر کے بڑے بھائی بہن کو بھی
سوچنا چاہیے عموماً بچے جب بھی کوئی بات
کرتے ہیں تو انہیں وہیں خاموش کروا دیا
جاتا ہے کہ ! تم تو بس چپ ہی رہو تمہاری کمی تھی بولنے کی ایسے باقی بہن بھائیوں
کے سامنے اسے ڈی گریٹ کیا جاتا ہے اور پھر
وہ یا تو کمرے میں چلا جاتا ہے یا باہر دوستوں کے پاس اور گھر والوں کو دیکھنا چاہیے
کہ ان کے بچے کن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیںاور ان کی اصلاح شروع سے ہی کرنی چاہیے۔
ایسا نہ ہو جب پہلے اس کو آزادی دی جائے اور جب وہ مکمل
طور پر ہاتھوں سے نکل جائیں تو اس کی اصلاح کرنے بیٹھ جائیں اور پھر ہر ایک سے شکوے کہ ہمارا بیٹا /بیٹی
ہماری بلکل نہیں سنتے۔ تو بہتر یہی ہے کہ شروع سے ان کی اصلاح کی جائے۔
اپنی اصلاح:
سب سے ضروری ہے کہ انسان خود کی اصلاح کرے بعد میں دوسروں کی ، خود کی اصلاح کیسے کی جائے۔؟
جی ہاں خود کی اصلاح بھی کی جاتی ہے اگر آپ کسی میں کوئی
برائی دیکھیں یا کوئی ایسی بات جو خود آپ
کی اپنی ذات کو پسند نہ ہو اس سے دوری اختیار کریں۔ہر خامی کو اپنے اندر تلاش کریں
تو اسے بھی دور کرنے کی کوشش کریں۔خود کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے قریبی
دوستوں سے پوچھے کہ مجھ میں کیا برائی ہے جب معلوم ہو جائے تو اس کو بھی دور کریں۔
حدیث کی روشنی میں اصلاح:
ایک حدیث شریف میں آتا ہے: ایک دیہاتی مسجد نبوی کے ایک
گوشے میں پیشاب کرنے لگا، مسجد میں موجود لوگوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور اس کو
برا بھلا کہنے لگے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے
صحابہ کرام کو خاموش کروایا ، حتی کہ جب
وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو پانی چھڑک کر صاف کرنے کا حکم دیا اور اس اعرابی کو بلا
کر نہایت نرم لہجہ میں فرمایا: مسجد پیشاب کرنے کی جگہ نہیں ہے مسجد میں الله کا ذکر کیا جاتاہے اور نماز ادا کی جاتی ہے، اس اعرابی
پر آپ صلی
الله علیہ وسلم کے اخلاق کا اتنا
اثر ہوا کہ وہ کہتے ہیں: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا او رنہ ہی برا بھلا کہا ۔(
سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر529)
آپ صلی الله علیہ وسلم کا انداز لوگوں کے ساتھ کس قدر محبت آمیز اور
مشفقانہ تھا، اس کا اندازہ حضرت انس کے بیان سے لگایا جاسکتا ہے، وہ کہتے ہیں:” میں
دس برس تک حضور صلی
الله علیہ وسلم کی خدمت میں رہا،
جو کام میں نے جس طرح بھی کر دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ”یہ کیوں کیا؟“ اگر کوئی کام نہ کر
سکا تو یہ نہیں فرمایا: ”یہ کیوں نہیں کیا؟ “ آپ صلی الله علیہ وسلم کا باندیوں اور خادموں کے ساتھ بھی یہی معاملہ
رہا، آپ صلی
الله علیہ وسلم نے ان میں سے کبھی
کسی کو نہیں مارا۔ (مسلم، باب کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم أحسن الناس خلقا، حدیث نمبر2309)
اللّہ پاک ہم۔سب کو اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے آمین
مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی
ہے ان
شاءاللّہ عزوجل*