ہمىں اگر اصلاح کرنے کا انداز معلوم کرنا ہو کہ وہ
کىسا ہونا چاہىے تو ہمىں ہمارے آخرى نبى تاجدار رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى حىاتِ
طىبہ کا مطالعہ کرنا چاہىے، کىونکہ حضورپاک کى حىاتِ طىبہ تمام انسانوں کے لىے اىک
عمدہ اور بہترىن نمونہ ہے جس طرح تاجدار رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنى حىاتِ طىبہ گزارى ہے اس کى مثال نہىں
ملتى، آپ ہمارے لىے ہداىت کا سرچشمہ ہىں۔ حضورپاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنى امت
کو ہر طرح کے نسب و اداب بتائے، اچھے اور
برے کى تمىز سکھائى ، انداز گفتگو بتاىا، حسن اخلاق بتاىا اور جہاں تک بات ہے
اصلاح کرنے کا انداز کىسا ہونا چاہىے ؟ ىہ بھى آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بتاىا اور
اس کا عملى نمونہ بھى کرکے دکھاىا۔ حضور جانِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اگر کسى کى
اصلاح کرتے تو ڈانٹ کر ىا سخت لہجے مىں
نہىں کرتے۔حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں کى سمجھ اور عقل کے مطابق ان کى اصلاح
فرماتے آپ کا انداز اىسا تھا کہ بات دل کى گہرائىوں تک اتر جاتى ، جىسا کہ قرآن
مجىد مىں ارشاد ہے:
وَ عِظْهُمْ
وَ قُلْ لَّهُمْ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا(۶۳)
تَرجَمۂ کنز الایمان: اور انہیں
سمجھا ؤ اور ان کے معاملہ میں اُن سے اثر کرنے والی بات کہو۔(پ۵، النساء:۶۳)
اسى طرح آپ
اپنے اخلاص کے ساتھ اصلاح کى کوشش جارى رکھىں اور دوسروں کو بھی اصلاح کى دعوت دىتے رہیں۔یاد رہے ہمارا اصلاح کا انداز نرم ہونا
چاہىے، ىہ نہىں کہ آپ کسى پر زور اور زبردستى کرىں، اگر کوئى شخص کوئى غلط کام
کررہا ہے تو آپ اس کو سمجھائىں، اس شخص کو بہتر سمجھانے کا طرىقہ یہ ہے کہ آپ اس
کى اکىلے مىں اصلاح کرىں اگر آپ سب کے سامنے اس کى اصلاح کرىں گے تو اس شخص کى دل
آزارى ہوگى، کىونکہ سب کے سامنے اس کے غلط کام کا پول کھل جائے گا اور اگر کسى کو
اس شخص کے غلط کام کے بارے مىں نہىں پتا ہوگا اسے بھى پتا چل جائے گا اور اس شخص
کى خوب رسوائى ہوگى اور ہمىں کسى کى دل آزارى نہىں بلکہ اس کى اصلاح کرنى ہے، اب
ضرورى نہىں ہے کہ ہر کسى کى اصلاح اکیلے مىں ہى کى جائے، اگر آپ اپنى کسى طالبہ کى
اصلاح کرنا چاہتى ہىں تو آپ کلاس مىں اس کا نام لىے بغىر سب کو مخاطب کرتے ہوئے
اصلاح کرىں اس سے اگر اىک سے زائد کسى اور طلبہ مىں کوئى برى عادت ہوگى تو اس کى
اس طرح اصلاح ہوجائے گى۔