آئیے سب سے پہلے جانتے ہیں کہ عشق و محبت میں فرق کیا ہے؟ محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ وار دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔ لہذا اس لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں؟ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں کہ محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے اور اگر محبت کا یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں اس میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے۔ اور مال و دولت یہاں تک کہ جان تک اس پر قربان کر دیتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 42)

عشق و محبت میں فرق: بلا شبہ محبت خدا اور محبت رسول ایک بہت بڑی نعمت ہے محبت اور عشق کے معنی و مفہوم میں ایک قدرے فرق ہے کیونکہ اللہ و رسول سے محبت تو ہر مسلمان کرتا ہے مگر عاشق کا درجہ کوئی کوئی پاتا ہے۔

لسان العرب میں عشق کا مطلب یہ مذکور ہے کہ محبت میں حد سے تجاوز کرنا عشق ہے۔

امام عشق و محبت اعلی حضرت عشق کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محبت بامعنی لغوی جب پختہ اور موکدہ یعنی بہت زیادہ پکی ہو جائے تو اس کو عشق کا نام دیا جاتا ہے۔ پھر جس کی اللہ کریم سے پختہ محبت ہو جائے اور اس پختگی محبت کے اثار ظاہر ہو جائیں کہ وہ ہر وقت اللہ کے ذکر و فکر اور اس کی اطاعت میں مصروف رہےتو پھر کوئی رکاوٹ نہیں کہ اس کی محبت کو عشق کہا جائے کیونکہ محبت ہی کا دوسرا نام عشق ہے۔ (فتاوی رضویہ، 21/ 115)

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

سیرت مصطفی صفحہ 831 پر ہے: اس آیت مبارکہ کا حاصل مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں جب تم ایمان لائے ہو اور اللہ اور رسول کی محبت کا دعوی کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم کسی غیر کی محبت کو ان کی محبت پر ترجیح دو گے تو وہ سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللہ اور رسول کی محبت کا دعوی بالکل غلط ہو جائے گا اور تم عذاب الہی اور کہر خداوندی سے نہ بچ سکو گے نیز آیت کے اخری ٹکڑے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس کے دل میں اللہ رسول کی محبت نہیں یقینا بلاشبہ اس کے ایمان میں خلل ہے۔ یہ آیت مبارکہ اللہ رسول کی محبت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے اور اس بارے میں امت کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے بلکہ یہ بہت ضروری ہے کہ ان کی محبت ہر محبوب کی محبت پر مقدم ہو۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض و فروع ہیں اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

سیرت صحابیات کی روشنی میں عشق و محبت مصطفی ﷺ پر مشتمل چند علامات: 1۔کثرت ذکر 2۔شوق ملاقات 3۔اتباع شریعت 4۔قرب محبوب کی کوشش 5۔جان و مال کی قربانی 6۔حکم محبوب پر عمل 7۔محبت اور نفرت کا معیار 8۔راہ خدا کے مصائب پر صبر 9۔تبرکات مقدسہ کی تعظیم۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں حقیقی عشق نصیب فرمائے۔ آمین