عشق کی تاثیر بڑی حیرت انگیز ہے۔ عشق نے بڑی بڑی مشکلات میں عقل انسانی کی راہنمائی کی ہے۔عشق نے بہت سی لاعلاج بیماریوں کا کامیاب علاج کیا ہے۔ عشق کے کارنامے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔

لیکن عشق بھی دو طرح کا ہوتا ہے ایک عشق حقیقی اور دوسرا عشق مجازی۔ عشق مجازی اکثر راہ دوزخ پر لے جاتا جبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنت پر گامزن کرتا ہے، عشق مجازی تباہ و برباد کرتا ہے اور عشق حقیقی شاد و آباد کرتا ہے۔ عشق حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہے، یہ کبھی سخت طوفان کا سامنا کرتا، کبھی فرعون کا مقابلہ کرتا، کبھی حکم الہی پر قربانی کے لئے سر رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ میں کود پڑتاہے جبکہ عقل تکتی رہ جاتی ہے۔

عشق حقیقی کی اصل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ہے جبکہ عشق مجازی کسی سے دنیا کی وجہ سے محبت کرنا ہے۔جبکہ اللہ کے بندوں سے اس کی رضا کے لئے محبت کرنا بھی عشق حقیقی کے ہی زمرے میں آتا ہے۔

صرف ایک ہی محبت ہے جس میں طعنہ نہیں ہے الزام نہیں ہے شرمندگی نہیں ہے رسوائی نہیں بے اعتباری نہیں ہے اور وہ صرف اللہ اور اس کے رسول و ﷺ کی محبت ہے۔

اسی عشق کامل کے طفیل صحابہ کرام علیہم الرضوان کو دنیا میں اختیار و اقتدار اور آخرت میں عزت و وقار ملا۔یہ ان کے عشق کا کمال تھا کہ مشکل سے مشکل گھڑی اور کٹھن سے کٹھن وقت میں بھی انہیں اتباع رسول ﷺ سے انحراف گوارا نہ تھا۔ وہ ہر مرحلہ میں اپنے محبوب آقا ﷺ کا نقش پا ڈھونڈتے اور اسی کو مشعل راہ بنا کر جادہ پیما رہتے۔ یہاں تک کہ

لحد میں عشق رخ شہ کاداغ لے کے چلے اندھیری رات سنی تھی چراغ لیکے چلے

چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے پیشتر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے کفن میں کتنے کپڑے تھے، حضور کی وفات شریف کس دن ہوئی، ا س سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی آرزو تھی کہ کفن و یوم وفات میں حضور کی موافقت ہو۔ حیات میں حضور ﷺ کا اتباع تھا ہی وہ ممات میں بھی آپ ہی کی اتباع چاہتے تھے۔ (بخاری، 1/468، حدیث: 1387)

اللہ اللہ یہ شوق اتباع کیوں نہ ہو صدیق اکبر تھے

غزوہ خیبر سے واپسی میں منزل صہبا پر نبی کریم ﷺ نے نماز عصر پڑھ کر مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زانو پر سر مبارک رکھ کر آرام فرمایا: مولیٰ علی نے نماز عصر نہ پڑھی تھی، آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے مگر اس خیال سے کہ زانو سرکاؤں تو شاید خواب مبارک میں خلل آئے زانو نہ ہٹایا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا۔ جب چشم اقدس کھلی مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنی نماز کا حال عرض کیا، حضور ﷺ نے دعا کی، ڈوبا ہواسورج پلٹ آیا، مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے نمازعصر ادا کی، پھر ڈوب گیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ افضل العبادات نماز، وہ بھی نماز وسطیٰ یعنی عصرمولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضور ﷺ کی نیند پر قربان کر دی کہ عبادتیں بھی ہمیں حضور ﷺ ہی کے صدقہ میں ملیں۔ (شفاء، 1/594)

بوقت ہجرت غار ثور میں پہلے حضرت صدیق اکبر گئے اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اس کے سوراخ بند کئے ایک سوراخ باقی رہ گیا اس میں پاؤں کا انگو ٹھا رکھ دیا، پھر حضور اقدس ﷺ کو بلایا تشریف لے گئے اور انکے زانو پر سر اقدس رکھ کر آرام فرمایا اس غار میں ایک سانپ مشتاق زیارت رہتا تھا، اس نے اپنا سر صدیق اکبر کے پاؤں پر ملا انہوں نے اس خیال سے کہ حضور ﷺ کی نیند میں فرق نہ آئے پاؤں نہ ہٹایا۔ آخر اس نے پاؤں میں کاٹ لیا جب صدیق اکبر کے آنسو چہرہ انور پر گرے چشم مبارک کھلی، عرض حال کیا۔ حضور ﷺ نے لعاب دہن لگا دیا فورا آرام ہوگیا۔ ہر سال وہ زہر عود کرتا، بارہ برس بعد اسی سے شہادت پائی۔ صدیق اکبر نے جان بھی سرکار ﷺ کی نیند پر قربان کی۔ (مدارج نبوت، 2/58)

ان ہی نکات کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے اپنے ان اشعار میں بیان فرمایا ہے:

مولیٰ علی نے واری تری نیند پر نماز وہ بھی عصر جو سب سے جو اعلیٰ خطرکی ہے

صدیق بلکہ غار میں جاں اس پہ دے چکے اور حفظ جاں تو جان فروض غررکی ہے

ان واقعات سے صحابہ کرام کے عشق رسول ﷺ کا جذبۂ صادق عیاں ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے اپنے محبوب آقا ﷺ کے ساتھ اپنے قلبی لگاؤ اور والہانہ عشق کے آداب کی تکمیل میں ایثار و قربانی کی جو مثالیں پیش کیں وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، آج بھی اگر ہم ان کی پیروی کریں تو سینوں میں عشق رسول کی شمع فروزاں ہو سکتی ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی معنوں میں صحابہ کرام کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور عشق الہی و عشق رسول ﷺ کی لازوال دولت سے مالامال فرمائے۔ آمین بجاه خاتم النبين ﷺ