سیرتِ نبوی کا ہر پہلو اپنے اندر بے انتہا رعنائی اور دلکشی رکھتا ہے اور جس پہلو سے بھی دیکھا جائے ہمارے آقا  و مولا حضرت محمد ﷺ اپنے اسوۂ حسنہ کے اعتبار سے یکتا اور بے مثال ہے۔اس مضمون میں مجھے جس پہلو سے کچھ عرض کرنا ہے وہ حضور ﷺ کی اپنے صحابہ کرام علیہم رضوان سے محبت ہے۔حضور ﷺ مکارمِ اخلاق کی بلند تیرین چوٹیوں پر فائز ہیں۔حضور ﷺ کی اپنے اصحاب علیہم الرضوان سے محبت کے بارے میں خاص طور پر یہ آیتِ کریمہ قابلِ توجہ ہے:لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(128)(پ11،التوبہ:128) ترجمۂ کنز الایمان:بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔ترجمہ:اے مومنو تمہارے پاس تمہاری ہی قوم کا ایک فرد رسول ہو کر ایا ہے تمہارا تکلیف میں پڑھنا اس پر شاق گزرتا ہے اور وہ تمہارے لیے خیر بھوکا ہے اور مومنوں کے ساتھ محبت کرنے والا اور بہت ہی کرم کرنے والا ہے۔۔

حضرات ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت:

یوں تو نبیِ کریم ﷺ کو اپنے تمام اصحاب ہی بہت پیارے تھے مگر سب سے قریبی اور قدیمی باوفا دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اور ہی مقام تھا جنہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر وفا کر دکھائی۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:حضور ﷺکے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ارشاد فرمایا: ابو بکر، پھر عمر اور اس کے بعد ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم۔میں نے پوچھا:پھر کون؟تو آپ نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموش ہی رہیں۔(ابن ماجہ،1/75،حدیث:102)

رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے محبت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اپنی محبت کا ذکر فرمایا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام ہی حضور ﷺکی دعا کا صدقہ تھا۔رسولِ کریمﷺ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدا داد استدادوں کے باعث ہی ان سے محبت فرماتے اور حوصلہ فضائی کرتے تھے۔چنانچہ ایک دفعہ فرمایا:تم سے پہلے بنی اسرائیل میں کچھ ایسے لوگ تھے جو( خدا سے )کلام کرتے تھے مگر وہ انبیا نہیں تھے ۔پس اگر ان میں سے میری امت میں بھی کوئی فرد ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔

(بخاری،2/528،حدیث:3689)

حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ ﷺ کی محبت بھی اپنی مثال آپ تھی۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں بیاہ دیں۔جب دوسری کا بھی انتقال ہو گیا تو فرمایا:اگر میرے پاس تیسری بیٹی بھی ہوتی تو میں اس کا نکاح بھی تم سے کر دیتا۔ (شرح عقائدِ نسفیہ، ص319)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:وصفِ نبوت کے علاوہ علی میرے ساتھ اس طرح ہے جس طرح حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے۔

(مسلم،ص1310، حديث:2404)

معلوم ہوا کہ ہمیں حضورﷺ کے ساتھ محبت کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت کا تعلق رکھنا ہوگا۔

رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینے تشریف لائے تو ایک خادم کی ضرورت محسوس ہوئی۔حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو لا کر عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ! یہ میرا بیٹا انیس ہے،میرےآپ کی بارگاہ میں اس لئے لائی ہوں تاکہ یہ آپ کی خدمت کرے،لہٰذا اس کے لئے اللہ پاک سے دعا کردیجئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کے لئے یوں دعا کی:الٰہی!ان کا مال اور ان کی اولاد زیادہ کر۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:الله پاک کی قسم!بے شک میرا مال بہت زیادہ ہے۔ میری اولاد اور اولاد کی اولاد آج تقریبًا سو سے زیادہ ہے۔ (مسلم،ص1035،حدیث:6376)

والدین کی طرح لاڈ اور پیار کی خاطر حضور ﷺ انس کو بیٹا اور انیس کہہ کر پکارتے۔(مسلم،ص973، حدیث:6015) کبھی ازراہِ مذاق یَا ذَا الْاُذُنَینِ(اے دو کانوں والے)کہہ دیا کرتے۔(ترمذی،3/399، حدیث:1998)اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا عشق عطا فرمائے۔اٰمین