حضور ﷺ کی صحابہ سے محبت از بنتِ محمد
کاشف ، فیضانِ اُمِّ عطار شفیع کا بھٹہ
سیالکوٹ
زندگی میں انسان کا طور طریقہ ،رہن سہن اورملنے جلنے کا
انداز بڑی اہمیت کا حامل ہے۔جیسے شمع پروانوں کی توجہ کا مرکز رہتی ہے اسی طرح
حُسنِ اخلاق ،ملنساری ،عاجزی و انکساری اور خیر خواہی کی خوشبو میں بسا انسان ہر
دل کی دھڑکن بنا رہتا ہے۔ یہ معاملہ تو عام انسانوں کا ہے کہ حُسنِ اخلاق کی چاشنی
لوگوں کے کانوں میں رس گھولتی رہتی ہے۔اگر ہم بات کریں ان کی کہ جن کا دہنِ اقدس
چشمۂ علم و حکمت ٹھہرا ،جن کی زبان کُن کی کنجی بنی ،جن کی ہر بات وحیِ خدا
ہوئی،جن کا مسکرانا ایسا کہ روتے ہوئےبھی ہنس پڑیں،جن کے اخلاق ایسے کہ خود ربِّ
اکبر ان کو عظیم فرمائے،ان کا اپنے صحابہ کے ساتھ ہر انداز ہی نرالا ہر ادا ہی
پیاری ہے۔برادرِ اعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
تری صورت تری
سیرت زمانے سے نرالی ہے تری
ہر ہر ادا پیارے دلیلِ بے مثالی ہے
آقائے
دو جہاں ﷺ کا ایک دیہاتی صحابی سے اندازِ محبت:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:حضور نبیِ کریم ﷺ
کے پاس ایک دیہاتی صحابی حضرت زاہر رضی اللہ عنہ جب بھی آتے تو ہدیہ لے کر آتے اور
حضور نبیِ کریم ﷺ بھی واپسی پر ان کو کچھ نہ کچھ عنایت ضرور کرتے تھے۔حضور نبیِ
کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے:زاہر ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں،نیز آپ انہیں بے حد عزیز رکھتے تھے۔حضرت زاہر رضی
اللہ عنہ بظاہر خوبصورت نہ تھے،لیکن ایک دن وہ بازار میں اپنا کچھ سامان فروخت کر
رہے تھے کہ حضور ﷺ نے پیچھے سے جا کرانھیں گود میں اُٹھا لیا،وہ آپ کو نہ دیکھ سکے
اور کہنے لگے:کون ہے؟مجھے چھوڑو!پھر جب انہوں نے نبیِ کریم ﷺ کو دیکھا تو آپ کے
سینۂ مبارک سے چمٹ گئے۔حضور نبیِ کریم ﷺ نے اعلان کرنا شروع کیا کہ کون ہے جو اس
غلام کوخریدے گا؟حضرت زاہر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!آپ کو میرے بدلے
کچھ نہیں ملے گا!حضور اکرم ﷺ نے مسکرا کر فرمایا:اللہ پاک کے نزدیک تیری بڑی قیمت
ہے۔
(حضور نبیِ کریم ﷺ
کی مسکراہٹیں، ص85)
صحابہ
کے ادب و پیروی کا حکم:
حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ
اللہ ﷺ نے فرمایا:میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔(مشکاة
المصابیح ، 2 /413 ، حدیث : 6012)ایک حدیثِ پاک
میں ہے:میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت
پاجاؤ گے۔(جامع بیان العلم، ص361 حدیث 975) امامِ اہلِ سنت رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں :
اہلسنت کا ہے
بیڑا پار اصحابِ حضور نجم
ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
حضرت
سعد رضی اللہ عنہ سے محبت بھرا انداز:
رسولِ کریم ﷺ مختلف مواقع پر اپنے صحابہ کی دلجوئی اور
حوصلہ افزائی بھی فرمایا کرتے تھے جیساکہ غزوۂ احد میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی
اللہ عنہ کی تیر چلانے کی مہارت کو دیکھتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی ان لفظوں سے
فرمائی:يَا سَعْدُ اِرْمِ فِدَاكَ
أَبِي وَأُمِّي اے سعد!تیر
پھینکو میرے ماں باپ تم پر قربان۔
(بخاری،3/38، حدیث:4059)
یہ وہ مبارک کلمات ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول
اللہ ﷺ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور کے والدین کو اس فضیلت میں جمع
نہیں فرمایا۔
(مسند امام
احمد،2/357،حدیث:1147)
امامِ اہلِ سنت،اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ علیہ بھی کیا ہی خوب فرماتے ہیں:
میرے کریم سے گر
قطرہ کسی نے مانگا دریا بہا
دیئے ہیں دربے بہا دئیے ہیں
تین
لُقمے اور تین مبارک بادیں:
ایک مرتبہ نبیِ
کریم ﷺ نے کھانا تیار کیا اور صحابۂ کرام
رضی اللہُ عنہم کو بُلایا، سب کو ایک ایک لُقمہ عطا کیا جبکہ حضرت ابو بکر صدیق
رضی اللہُ عنہ کو تین لُقمے عطا کئے۔حضرت عباس رضی اللہُ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا:جب پہلا لقمہ دیا
تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:اے عتیق!تجھے مبارک ہو ،جب دوسرا لقمہ دیا تو
حضرت میکائیل علیہ السلام نے کہا:اے رفیق!تجھے مبارک ہو،تیسرا لقمہ دیا تو اللہ
کریم نے فرمایا:اے صدیق!تجھے مبارک ہو۔ ( الحاوی
للفتاویٰ، 2/51)
گستاخیِ
صحابہ پر فرمانِ مصطفےٰﷺ:
محبتِ صحابہ محبتِ رسول ہے اور بغضِ صحابہ بغضِ رسول ہے۔صحابہ
کرام علیہم الرضوان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی قابلِ گرفت ہے۔نیز صحابہ کرام
علیہم الرضوان جس مقام و مرتبہ پر فائض ہیں انہیں جو ردائے فضیلت عطا کی گئی ہے اس
کے پیشِ نظر ان کے بارے میں ہلکی سی بدگمانی کی بھی اجازت نہیں،کیونکہ صحابہ کرام
علیہم الرضوان کو برا بھلا کہنے کی سختی سے ممانت کر دی گئی ہے۔چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبیِ
کریم ﷺ نے فرمایا:میرے صحابہ علیہم الرضوان کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو۔میری عدم
موجودگی میں انہیں ہدفِ تنقید نہ بنایا کرو کیونکہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری
وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے
بغض رکھا اورجس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے
تکلیف پہنچائی اس نے اللہ پاک کو تکلیف پہنچائی قریب ہے کہ
اللہ پاک اسے اپنی گرفت میں لے لے۔
(ترمذی ،5/463،حدیث:3888)
اللہ کریم ہمیں دل و جان، زبان و قلم سے ہر صحابی رضی اللہ
عنہ کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہمارے ایمان کی حفاظت
فرمائے اور جنّت میں ان کے قدموں میں جگہ عطا فرمائے۔
اٰمین بجاہ ِالنبی
الامین ﷺ