اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(128)(پ 11 ،التوبہ: 128)ترجمۂ کنز الایمان:بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔

بے شک اللہ پاک نے حضور ﷺ کو عظیم اخلاق سے نوازا ہے کہ آپ کا نہ تو کوئی ثانی ہوا اور نہ کبھی ہوسکے گا جیسا کہ ارشاد ہوا:وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(4)(پ29،القلم:4) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو ۔

کوئی انسان بھی کما حقہٗ حضور ﷺکے اخلاق کو بیان نہیں کرسکتا۔جب ہم دنیا کی نعمتیں نہیں گن سکتیں جو کہ بہت تھوڑی ہیں چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌۚ(پ5،النسآء:77)ترجمہ:”تم فرماد و کہ دنیا کا برتنا تھوڑا ہے۔“تو جسے رب عظیم کہے اسے کیسے گن سکتے ہیں! اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

تِرے خُلْق کو حق نے عظیم کہا تِری خِلْق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہو گا شہا ترے خالقِ حُسن و ادا کی قسم

ان بے شمار خوبیوں اور اداؤں میں سے آپ ﷺ کی اپنے اصحاب کے ساتھ محبت و شفقت بھی ہے۔خیال رہے کہ صحابہ کرام وہ ہستیاں ہیں کہ جن کے بارے میں مصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا:میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ،اِن میں سے جس کی بھی اقتدا(یعنی پیروی )کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔(جامع بیان العلم، ص361، حدیث:975) ایک اور مقام پر فرمایا:اللہ پاک نے میرے صحابہ کو نبیوں اور رسولوں کے علاوہ تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے اور میرے تمام صحابہ میں خیر یعنی بھلائی ہے۔(تاریخ اصبہان،1/ 467،رقم:929)

ان روایات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضور اپنے اصحاب سے اس قدر محبت فرماتے ہیں کہ بعد میں آنے والی اپنی امت کو ان کی اقتدا کرنے کی تعلیم ارشاد فرما رہے ہیں۔

حضور اقدس ﷺ کی صحابہ کرام سے محبت و شفقت کے چند واقعات:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے اچھے اخلاق والے تھے۔حضور نے مجھے ایک دن کسی کام کے لیے بھیجا،میں نے کہا:اللہ پاک کی قسم!میں نہ جاؤں گا اور میرے دل میں یہ تھا کہ اس کام کے لئے جاؤں جس کا مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا، چنانچہ میں روانہ ہوگیا یہاں تک کہ میں کچھ بچوں پر گزرا جو بازار میں کھیل رہے تھے ،اچانک رسول اللہ ﷺ نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑی،میں نے حضورﷺ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے۔فرمایا: اے انیس !کیا تم وہاں جارہے ہو جہاں جانے کا میں نے تم کو حکم دیا تھا؟ میں نے عرض کی:ہاں!یا رسول اللہ ﷺ! میں جارہا ہوں۔(مسلم،ص972،حدیث:6015 )

شرحِ حدیث:خیال رہے کہ یہ جواب نافرمانی یا مخالفتِ حکم نہیں بلکہ ناز بردار بے نیاز کریم پر نیاز مندانہ ناز ہے۔

کشادہ دستِ کرم جب وہ بے نیاز کرے نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے

یہاں حضور علیہ السلام کا آپ کی گردن پکڑنا اور آپ کو انیس کہہ کر پکارنا محبت و کرم سے تھا۔(مراۃ المناجیح،8/66،65)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں بھوک میں روئے زمین پر اپنے جگر پر اعتماد کرتا تھا اور میں بھوک سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔ایک دن میں عام راستہ پر بیٹھا تو گزرنے والے اصحاب سے قرآنِ مجید کی ایک آیتِ کریمہ کے متعلق پوچھنے لگا اور اس سے میرے نیت یہ تھی کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں اور کچھ کھلائیں مگر وہ میری مراد کو نہ سمجھے۔پھر حضور رحمتِ عالم ﷺ تشریف لائے اور میرے دل کی کیفیت جان کر مسکراتے ہوئے فرمایا:اے ابو ہریرہ!میں نے عرض کی:لبیک یا رسول اللہ ﷺ! فرمایا:میرے ساتھ چلو اور پھر آپ مجھے کاشانۂ نبوت میں لے گئے۔میں نے وہاں دودھ کا ایک پیالہ دیکھا۔ حضور سیدِ عالم ﷺ کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ فلاں کی طرف سے ہدیہ ہے۔حضور ﷺ نے فرمایا:اے ابو ہریرہ!میں نے عرض کی: لبیک یا رسول اللہﷺ!فرمایا:جاؤ!اصحابِ صُفہ کو میرے پاس بلا لاؤ۔فرماتے ہیں: جب وہ لوگ آگئے تو حضور ﷺنے فرمایا:اے ابو ہریرہ!میں نے عرض کی:لبیک یا رسول اللہ ﷺ! فرمایا:پیالہ اٹھاؤ اور ان لوگوں کو دے دو۔میں نے پیالہ اٹھا کر انہیں دیا تو یکے بعد دیگرے پیتے پلاتے وہ پیالہ رسولِ اکرم ﷺ تک پہنچا اور سب اصحابِ صُفَّہ خوب سیر ہو چکے تو حضور ﷺ نے پیالہ اپنے مقدس ہاتھ پر رکھا اور میرے طرف دیکھ کر تبسم فرمایا اور فرمایا:اے ابو ہریرہ!میں نے عرض کی:لبیک یا رسول اللہ ﷺ!فرمایا:اب ہم اور تم باقی رہ گئے ہیں۔پھر فرمایا:بیٹھ جاؤ اور پیو۔تو میں نے پیا۔فرمایا اور پیو۔تو میں نے پھر پیا،آپ برابر یہی فرماتے رہے کہ اور پیو،تو میں اور پیتا رہا یہاں تک کہ میں نے عرض کی:قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ اب دودھ گزرنے کی بھی راہ باقی نہیں رہی۔پھر وہ پیالہ میں نے حضور ﷺ کو پیش کردیا تو آپ نے اللہ پاک کی حمد کی اور بسم اللہ پڑھ کر بچا ہوا دودھ پی لیا۔

(بخاری، 4/234،حدیث:6452ملخصاً)(بزرگوں کے عقیدے ،ص 39تا41 ملخصاً)

کیوں جنابِ بُوہُریرہ تھا وہ کیسا جامِ شِیر جس سے سَتّر صَاحبوں کا دودھ سے مُنھ پھر گیا

قربان جائیے!مصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ کی ان اداؤں پر! کہ حضورﷺ اپنے غلاموں کے حالات سے واقف ہیں جبھی تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دلی کیفیت جان کر مسکرانے لگے اور یہ آپ کی محبت و شفقت ہی تھی کہ اپنے اصحاب کی بھوک مٹانے کے بعد دودھ نوش فرمایا۔ان کے علاوہ بھی کئی ایسی روایات و واقعات ہیں کہ جن میں حضور ﷺ کی اپنے اصحاب سے محبت اور ان پر آپ کی شفقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔مولانا مصطفےٰ رضا خان رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

آپ ہیں شانِ کرم کانِ کرم جانِ کرم آپ ہیں فضلِ اَتم لُطفِ اَعم کی صورت

اللہ کریم ہمیں صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سچی محبت اور ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حضور جانِ عالم ﷺ کے جود و کرم اور آپ کی شفاعت سے حصہ نصیب فرمائے۔اٰمین بجاهِ خاتمِ النبينﷺ