مقرب فرشتوں کے بعد تمام مخلوق میں سب سے افضل و اعلیٰ
مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہے۔اہلِ سنت کا اسی پر اتفاق ہے کہ انبیائے
کرام علیہم السلام کے بعد تمام عالم میں افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ان
کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ،ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ،ان کے بعد حضرت
علی رضی اللہ عنہ، پھر عشرہ مبشرہ رضی
اللہ عنہم،پھر اہلِ بدر رضی اللہ عنہم، ان کے بعد اہلِ احد رضی اللہ عنہم،ان کے
بعد باقی اہلِ رضوان اور پھر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم۔یہ اتفاق ابو منصور
بغدادی نے نقل کیا ہے۔ (دس اسلامی عقیدے،ص 97)
نبیِ کریم ﷺ نے اپنے اصحاب سے محبت کا اظہار اس طرح فرمایا
کہ آپ اکثر ان کا ذکر فرماتے تھے۔آئیے!
پہلے صحابی کی تعریف جانتی ہیں۔چنانچہ حضرت علامہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں حضور نبیِ کریم ﷺ کی صحبت کا
شرف پایا اور ایمان ہی پر خاتمہ ہوا انہیں صحابہ کہتے ہیں۔ (دس اسلامی عقید ے، ص
98)
نبیِ کریم ﷺ نے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم کا
حکم دیتے ہوئے ان کو امت کے بہترین افراد ہونے کی سند عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا:اَکْرِمُوْا أَصْحَابِي فَاِنَّهُمْ خِيَارُكُم یعنی میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں۔ایک
اور حدیثِ مبارک میں ہے:خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ
الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ یعنی میری امت میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانے کے ہیں اور پھر وہ لوگ جو ان سے
ملے ہوئے ہیں اور پھر ان کے بعد والے لوگ سب سے بہتر ہیں۔(دس اسلامی عقیدے، ص 100)
نبیِ کریم ﷺ کے تمام صحابہ عادل ہیں اور نیک و پرہیزگار
افراد کے سردار ہیں۔نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:أَصْحَابِي
كَالنُّجُومِ فَبِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُمْ یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی
بھی اقتدا کرو گےفلاح و ہدایت پا جاؤ گے۔ (دس اسلامی عقیدے،ص 105)
ایک واقعہ ملاحظہ کیجئے
جس میں حضور نبیِ کریم ﷺ نے خواب میں امیر المومنین حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ
سے اپنی محبت ظاہر کی۔جیسا کہ عارف باللہ حضرت علامہ امام عبد الرحمن جامی رحمۃ
اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب شواہد
النبوۃ میں یارِ غار و یارِ مزار،عاشقِ شہنشاہِ ابرار،خلیفہ اول بلا فصل امیر
المومنین حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی
مبارک زندگی کے آخری ایام کا ایک ایمان افروز خواب نقل کیا ہے،جس کا کچھ حصہ بیان
کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ
امیر المومنین حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک
مرتبہ رات کے آخری حصے میں مجھے خواب میں دیدار ِمصطفےٰ کی سعادت نصیب ہوئی۔آپ نے دو سفید کپڑے زیبِ تن
فرما رکھے تھے اور میں ان دونوں کپڑوں کے کناروں کو ملا رہا تھا۔اچانک وہ دونوں
کپڑے سبز ہونا اور چمکنا شروع ہو گئے، ان کی چمک دمک آنکھوں کو چکا چوند کرنے والی
تھی۔حضور پُرنور ﷺ نے مجھے:السلام علیکم کہہ کر ہاتھ ملانے سے مشرف فرمایا اور اپنا دستِ اقدس میرے سینے پر رکھ دیا
جس سے میرےدل کا بے قرار ہونا دُور ہو گیا،پھر فرمایا: اے ابوبکر !مجھے تم سے ملنے
کا بہت اشتیاق یعنی خواہش ہے، کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم میرے پاس آجاؤ ؟میں
خواب میں بہت رویا یہاں تک کہ میرے اہلِ خانہ کو بھی میرے رونے کی خبر ہوگئی،جنہوں
نے بیدار ہونے کے بعد مجھے خواب کی اس گریہ و زاری سے مطلع کیا۔( عاشقِ اکبر، ص
36)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبیِ کریم ﷺ
نے ارشاد فرمایا:بےشک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور وہ ہر مومن کے ولی
ہیں۔ (ترمذی ،5/498،حدیث:3732) تو حضرت
جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی:وانا منکما اور میں تم
دونوں سے ہوں۔(مدارج النبوت،2/121،122)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نسب ،مصاہرت، محبت،خصوصیات اور رشتے
داری وغیرہ میں پیارے آقا ﷺ سے مشابہت رکھتے ہیں۔
حدیثِ مبارکہ میں
فرمایا گیا کہ ہر مومن کے ولی ہیں اس کا مطلب ہے کہ ہر مسلمان کے
وَلی اور مولیٰ ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح،8/417)
اسی طرح آپ کے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہیں آپ نے جنت
کی بشارت دی،ان میں ایک صحابی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے بارے میں حضور ﷺ
نے فرمایا :کون ہے جو قوم کو یوم ِاحزاب کی خبر دے گا؟تو حضرت زبیر
رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں۔اس پر حضور ﷺ نے فرمایا:ہر نبی کا ایک حواری ہے اور
میرا حواری(مخلص دوست)زبیر ہے۔بخاری،3/54،حدیث:4113
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ
ﷺ نے ارشاد فرمایا:ہر نبی کا ایک رفیق ہے اور میرے رفیق حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ
عنہ ہیں۔(ترمذی،5/390، حدیث :3718)
ابنِ ابی ملیکہ فرماتے ہیں:میں نے اُمُّ المومنین حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا:انہوں نے رسول الله ﷺ سے سوال کیا کہ اگر
آپ کسی کو خلیفہ بنانا چاہیں تو کس کو بنائیں گے ؟ فرمایا ابوبکر کو۔عرض کی:اس کے
بعد؟ فرمایا:عمر کو۔عرض کی:اس کے بعد؟ فرمایا:ابو عبیدہ بن جراح کو۔(مسلم،ص1300، حدیث:238)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا:میری اُمت
میں سب سے زیادہ شفیق اور مہربان ابوبکر،
دینی معاملات میں سب سے زیادہ سخت عمر،
حیاکے معاملے میں سب سے زیادہ سچے عثمان،کتاب
اللہ کے سب سے بڑے قاری اُبی بن کعب،علم الفرائض کوسب سے زیادہ جاننے والے زیدبن
ثابت اورحلال وحرام کے سب سے بڑے عالم معاذ بن جبل ہیں اور سن لو! ہر اُمت میں ایک امین ہوتا ہے اس اُمت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں۔(ترمذی،4/435،حدیث:3815)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں:بے شک
اللہ پاک نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر فرمائی توحضرت محمد مصطفےٰ ﷺکو اپنا محبوب بنایا۔انہیں
ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔اپنی رسالت کاتاج ان کے سر سجایا اور اپنے علم سے ان کا
انتخاب فرمایا۔پھر دوبارہ اپنے بندوں کے دلوں پر نظر فرمائی تو آپ کے لئے جا ں
نثار دوستوں کا انتخاب فرمایا اورانہیں اپنے دین کا مددگار اور اپنے نبی ﷺ کا وزیربنایا۔
پس جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ (اللہ پاک کے نزدیک بھی ) اچھاہے اور جسے مسلمان بُرا
جانیں وہ برا ہے۔
(مسندابی داودالطیالسی،ص33، حدیث:246)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
جو کسی کی پیروی کرنا چاہتا ہو وہ اسلاف کی پیروی کرے جو حضورنبیِ اکرم ﷺ کے صحابہ
ہیں۔یہی اس امت کے بہترین لوگ ہیں۔ ان کے دل نیکی وبھلائی میں سب لوگوں سے بڑھ
کرہیں۔ان کا علم سب سے وسیع اور ان میں بناوٹ ونمائش نہ تھی۔یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں
کہ جنہیں اللہ پاک نے اپنے محبوب ﷺ کی صحبت اور دین کی تبلیغ کے لئے منتخب
فرمایا۔لہٰذاتم ان کے اخلاق و عادات اور ان کے طور طریقوں پر چلو کیونکہ وہ حضرت
محمد مصطفی ، احمدمجتبیٰ ﷺ کے صحابہ ہیں۔ ربّ کعبہ کی قسم!یہی لوگ ہدایت کے سیدھے
راستے پرگامزن تھے۔ اے بندے !محض اپنے بدن کی حدتک دنیا سے تعلق قائم کر اور اپنے
دل ودماغ کو اس سے دور رکھ کیونکہ تیری نجات کا دارو مدار تیرے عمل پر ہے۔ لہٰذا
تو ابھی سے موت کی تیاری کر تاکہ تیرا انجام اور خاتمہ اچھا ہو ۔(حلیۃ
الاولیاء،1/378،رقم:1065)