پیارے آقا ﷺ سے جس قدر اصحاب کرام علیہم رضوان کو محبت اور عشق تھا اسی قدر بلکہ اس سے کئی گناہ بڑھ کر آقا کریم ﷺ کو اپنی جلیل القدر اصحاب کرام سے محبت تھی۔آقا کریم ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ حسنِ سلوک والا معاملہ فرماتے،ان کی دل جوئی فرماتے،ان کی دعوت کو قبول فرماتے، ان سے نرم لہجہ اختیار فرماتے، ان کے بچوں کے ساتھ پیار فرماتے، ان سے مزاح بھی فرماتے، ان کے بچوں سے کھیلتے اور ان کو گود میں بٹھاتے۔جب کوئی صحابی بیمار ہو جاتا تو اس کی عیادت کے لیے خود تشریف لے جاتے اور کیوں نہ ہوتا کہ اپنے آقا کریم ﷺ پر دل و جان سے قربان ہونے والے یہ پیارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مصائب و مشکلات میں آقا کریم ﷺ کے ساتھ کھڑے رہے، آقا کریم ﷺ کے ہر حکم پر لبیک کہنے کے لیے حاضر رہتے،آپ پر جان قربان کرنے کے لیے حاضر رہتے۔حضور ﷺ بھی اپنے صحابہ کی اس محبت سے واقف تھے اور اسی قدر بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت فرماتے۔ حضور ﷺ کس قدر اپنے اصحاب سے محبت فرماتے تھے۔آئیے! انہی کی   زبانِ مبارک سے ملاحظہ کیجئے۔چنانچہ

حسنِ سلوک :

حضور ﷺ کے خاص خادم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور اقدس ﷺ کی دس برس خدمت کی مگر آقائے دو عالم ﷺ نے کبھی بھی مجھ سے یہ نہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کام کیوں نہیں کیا۔(بخاری،4/110،حدیث:6038)

قربان جائیے!یہ بھی آقا ﷺ کا اندازِ محبت ہے کہ کبھی بھی آقا ﷺ نے ان کو کسی بات پر نہیں جھڑکا، نہ ہی ڈانٹا، حالانکہ انسان کتنا ہی صابر کیوں نہ ہو مگر کبھی نہ کبھی وہ پریشانی میں کچھ نہ کچھ بول ہی دیتا ہے مگر آقا ﷺ اپنے اصحاب سے نہایت نرمی و شفقت والا معاملہ فرماتے اور غلطی ہو جانے پر نہ ہی جھڑکتے نہ ہی ڈانٹتے بلکہ احسن انداز سے اصلاح فرماتے۔حضور ﷺ کے اس انداز سے واضح ہوا کہ کس طرح سے حضور ﷺ اپنے اصحاب سےنہ صرف خود محبت فرماتے بلکہ اس کا حکم بھی ارشاد فرمایا ۔جیسا کہ

اصحاب سے محبت کا حکم :

حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:میرے صحابہ کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو ،اللہ پاک سے ڈرو ،اللہ پاک سے ڈرو۔میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذادی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے۔

( ترمذی ، 5 /302 ،حدیث :3864)

اس سے واضح ہو گیا کہ حضور ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے جب تک محبت نہ ہوگی محبِت رسول کا دم بھرنا لغو ہے۔ نیز حضور ﷺ کے اس فرمان سے واضح ہوا کہ حضور ﷺ کو اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی کتنی فکر اور ان سے کتنی محبت تھی کہ حضور ﷺ نے اپنی امت کو ان سے محبت کرنے حکم دیا۔نیز حضور ﷺ نے مختلف مواقع پر اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی دل جوئی بھی فرمائی۔چنانچہ

انداز دلجوئی :

امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا :میں نے حضور ﷺ سے عمرہ کرنے کی اجازت طلب کی تو حضور ﷺ نے اجازت مرحمت فرمائی اور فرمایا:اے میرے بھائی!ہمیں اپنی دعاؤں میں نہ بھول جانا۔حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:یہ کلمات مجھے دنیا کی ہر شے سے زیادہ خوشی دیتے ہیں۔(ریاض الصالحین،ص258،حدیث: 714)

حضور ﷺ کا اپنے اصحاب کے دل میں خوشی داخل کرنے کا یہ عمل نرالہ اور آپ کی شایانِ شان ہے کہ آپ کو معلوم تھا کہ کن کلمات کی وجہ سے میرے صحابی کا دل خوش ہو جائے گا۔چنانچہ آپ نے یہ کلمات ارشاد فرمائے جو کہ واقعی حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی خوشی کا باعث بنے کہ انہوں نے فرما دیا کہ میرے لیے تمام جہان کی نعمتوں اور خوشیوں سے بڑھ کر یہ خوشی ہے۔ورنہ حضور ﷺ کی امت کے لوگوں کی کیا مجال کہ وہ جن کا صدقہ ہمیں ملتا ہے اور جن پر دن رات رحمتوں کے سائے ہیں ان کے لیے دعا فرمائیں۔

اسی طرح کسی موقع پر کسی چیز کی بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو طلب ہوتی تو وہ حضور ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں فوراً حاضر ہو جاتے اور حضور ﷺ ان کی وہ حاجت پوری فرمادیتے۔چنانچہ

حضور کا اصحاب کی حاجات پوری کرنا:

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صلحِ حدیبیہ کے دن لوگ پیاسے تھے اور حضور ﷺ کے سامنے ایک پیالہ تھا جس سے آپ نے وضو فرمایا تو لوگ آپ کی طرف دوڑے۔حضور ﷺ نے فرمایا:کیا بات ہے؟ لوگوں نے عرض کی کہ ہمارے پاس وضو کرنے اور پینے کے لیے پانی نہیں ہے مگر یہی جو آپ کے سامنے ہے۔حضور ﷺ نے اپنا دستِ مبارک اسی پیالہ میں رکھ دیا تو آپ کی مبارک انگشت سے پانی چشموں کی طرح ابلنے لگا۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہاں پر موجود تمام لوگوں نے پانی بھی پیا اور اس سے وضو بھی فرمایا جن کی تعداد تقریبا 1500 تھی۔

(بخاری،2/493،حدیث: 3576 )

انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر ندیاں پنجابِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ

افضلیتِ اصحاب:

یہ تھی حضور ﷺ کی الفت کہ ادھر انہوں نے پانی نہ ہونے کی شکایت کی اور ادھر حضور ﷺ نے خاص ان کے لیے اپنے دستِ مبارک سے چشمہ جاری فرما دیا۔صرف یہی نہیں بلکہ حضور ﷺ نے اپنی الفت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرے تو ان کے ایک مد کو تو کیا آدھے کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔(بخاری،2/522، حدیث:3673)

سبحان اللہ!انہیں کس قدر عظمت عطا ہوئی کہ کوئی چاہے کتنا کثیر ہی مال کیوں نہ راہِ خدا میں خرچ کرے مگر جو اصحابِ رسول خرچ کر چکے ان کے اجر و ثواب کو تم نہیں پہنچ سکتے۔

اگر ہم ہر صحابیِ رسول رضی اللہ عنہ کے لحاظ سے الگ الگ حضور ﷺ کی ان سے محبت اور فضیلت بیان کریں تو یہ مضمون تو پھر اس کے لیے انتہائی مختصر ہے کہ وہ پہلو تو بہت وسیع ہے،اسی لیےصرف چند اصحاب کی روایات بیان کی گئیں ورنہ ہر صحابی کے اعتبار سے تو پھر کثیر روایات ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ حضور ﷺ سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کی جائے جن سے حضور ﷺ محبت فرماتے ہیں ورنہ ہدایت کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے اگر ہم کسی ایک بھی صحابی کی اتباع کرلیں تو فرمانِ مصطفےٰ ﷺ کے مطابق ان شاء اللہ فلاح پانے والی ہو جائیں گی۔

اتباعِ اصحاب رسول :

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں،تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے فلاح پاجاؤ گے۔(جامع بیان العلم، ص 361 ،حدیث: 970) نیز اللہ پاک بھی ان سے محبت کرتا ہے کہ جن سے اس کے حبیب ﷺ محبت فرماتے ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک قرآنِ مجید میں ان کے متعلق ارشاد فرماتا ہے:

رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-( پ30،البینہ:8)ترجمہ کنزالایمان :اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔

توجن سے اللہ پاک اوررسولِ پاک ﷺ راضی ان کا ٹھکانا جنت ہے۔ لہٰذاہمیں محبت رکھنے کے اعتبار سے سب کو یکساں ہی رکھنا ہے کیونکہ ہر صحابیِ نبی جنتی جنتی ۔