اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ کو نمازسے بہت محبت تھی،آپ نے نماز
کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔
(معجم کبیر،20 /
420،حدیث:1012)
جب نماز کا وقت ہوتاتو آقاکریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے
فرماتے:قُمْ یا بِلَالُ فَاَرِحْنَا بِالصَّلَاۃِ اے بلال!اٹھو اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔(ابوداود،4 /
385،حدیث:4986)
نبیِّ پاک ﷺ کی نمازکی کیفیت:
حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کی کیفیتِ نماز کا ذکر کرتے ہوئے
فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں اللہ کے آخری نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ
رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسی ہنڈیا کی
آواز ہوتی ہے۔
(ابو داود،1 /
342،حدیث:904)
ان دونوں روایات سے رسولِ کریم ﷺ کی نماز سے محبت اور خشوع
و خضوع کا اندازہ ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضورﷺ کا عمل
تھا کہ جب نماز کا وقت ہو جاتا ہے تو ہم سے ایسے لا تعلق ہو جاتے تھے کہ جیسے کوئی
شناسائی نہ ہو۔(فیضان نماز، ص283ملخصاً)
حضورﷺ اپنی نماز میں اس قدر قیام فرماتے تھے کہ آپﷺ کے پائے
مبارک متورم ہو جاتے تھے۔
(مسلم،ص 1160،حدیث:7126)
حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے:نماز مومن کی معراج ہے۔(مرقاۃ،1/55)
آپﷺ کی نماز میں حد درجے کی محویت تھی گویا کہ آپ کی نماز
کامل تھی۔ نفلی نمازوں میں بھی خشیت الٰہی
سے اشک بار ہو جاتے اور اللہ کی طرف اتنی
لگن اور محبت سے متوجہ ہوتے کہ دنیا کے ہر خیال سے بے نیاز اور بارگاہِ رب العزت
کے بالکل قریب ہو جاتے۔ آپ جیسی کامل اور مقبول نماز نہ کوئی پڑھ سکا اور نہ کوئی
پڑھ سکے گا۔
آپ تہجد پڑھا کرتے تھے اور شروع میں آپﷺ پر نماز تہجد فرض تھی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد صبح
و شام آپ نے دو رکعتیں پڑھنا شروع کر دیں۔ اس کا ذکر قرآن پاک میں یوں ہوا ہے:وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًاۖۚ(25) وَ مِنَ
الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَ سَبِّحْهُ لَیْلًا طَوِیْلًا(26) (پ29،الدھر:26،25 ) ترجمہ:اور
اپنے رب کا نام صبح و شام یاد کرواور کچھ رات میں اسے سجدہ کرو اور بڑی رات تک اس کی پاکی بولو۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات اللہ پاک کے نبی ﷺ مسجد میں نماز ادا فرما رہے تھے میں نے موقع غنیمت جانا اور آپ کے
پیچھے کھڑے ہو کر ابتدا میں نماز شروع کر دی۔اللہ پاک کے رسول، رسولِ مقبول ﷺ نے
دورانِ نماز سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع فرمائی ،میں دل میں خیال کر رہا تھا کہ
حضور کائنات ﷺ سو آیات پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن آپ نے سو آیات پڑھ کر رکوع
نہیں فرمایا بلکہ آگے پڑھتے گئے، اب میں نے پھر خیال کیا 200 آیات پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن آپ نے 200 آیات پر بھی رکوع نہیں فرمایا،اب مجھے خیال آیا
کہ حضور اکرم ﷺ پوری سورۃ البقرہ تقریباً اڑھائی پارے ایک ہی رکعت میں پڑھ کر رکوع
فرمائیں گے چنانچہ سورۃ البقرہ پوری ہو گئی لیکن اب بھی آپ نے رکوع نہ فرمایا، اب
سورۂ ال عمران شروع ہو گئی میں سوچ رہا تھا کہ سورۂ ال عمران پڑھ کر رکوع فرما
دیں گے، حضور اکرم ﷺ نے سورۂ ال عمران مکمل کرنے کے بعد سورۃ النسآء شروع کر دی،
میں نے سوچا کہ حضور کریم ﷺ سورۃ النسآء پڑھ کر رکوع فرما دیں گے لیکن اب بھی
میرا خیال درست نہ تھا،جان ِکائنات ﷺ نے سورۃ النسآء مکمل کی تقریباً سوا پانچ
پارے کی تلاوت فرمائی اور سورۃ المائدہ کی تلاوت شروع فرما دی، سورۃ المائدہ کی
تلاوت مکمل کرنے کے بعد تقریباً سوا چھ پارے پڑھنے کے بعد رکوع فرمایا۔میں نے سُنا
کہ آپ رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھ رہے تھے ، پھر(دوسری رکعت میں آپ نے سورۂ اَنْعَام شروع فرما دی۔
(مصنف عبدالرزّاق
، 2 / 95و96 ، حدیث:2845)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ کی آخری گفتگو
بھی نماز سے متعلق تھی،آپ نے فرمایا:نماز! نماز! اور اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ
سے ڈرتے رہنا۔
(ابوداود،ص1600،حدیث: 5156)
آپ ﷺ خود بھی نماز کے جملہ آداب بجا لاتے اور دوسروں کو
ان کی تعلیم فرماتے۔چنانچہ
حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد
میں آیا، رحمت ِ عالم ﷺمسجِد کے ایک
کونے میں جلوہ گَر تھے، اس شخص نے نماز پڑھی اور حضورِ اکرم ﷺ کو
سلام کیا، اُس سے نبیِّ کریم ﷺ نے فرمایا:وَعَلَیْکَ السَّلَام، لوٹ جاؤ، نماز پڑھو تم نے نماز نہیں
پڑھی! وہ لوٹ گیا نماز پڑھی پھر آیا سلام کیا، آپ نے فرمایا: وَ عَلَیْکَ السَّلَام، لوٹ جاؤ، نماز پڑھو تم نے نماز نہیں
پڑھی! اس نے دوسری بار یا اس کے بھی بعد عَرض کی: یا رسولَ اللہ ﷺ! مجھے سکھادیجئے۔آپ ﷺ نے فرمایا:جب تم نماز کی طرف اٹھو تو وُضو
پورا کرو پھر کعبے کو منہ کرو، پھر تکبیر کہو، پھر جس قدر قرآن آسان ہو پڑھ لو
پھر رُکوع کرو یہاں تک کہ رُکوع میں مطمئن ہوجاؤ پھر اٹھو حتّٰی کہ سیدھے کھڑے ہو
جاؤ پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدے میں
مطمئن ہوجاؤ پھر اٹھو یہاں تک کہ اِطمینان سے بیٹھ جاؤ پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ
سجدے میں مطمئن ہوجاؤ پھر اٹھو یہاں تک کہ اِطمینان سے بیٹھ جاؤ پھر اپنی ساری
نماز میں یہی کرو۔(بخاری،4/172،حدیث:6251)
قرآنِ کریم میں بھی سب سے زیادہ جس امر کی طرف اللہ نے توجہ
دلائی ہے وہ نماز ہی کا قیام ہے۔چنانچہ آپ نے بھی سب سے زیادہ توجہ اسی امر کی طرف
ہی دلائی ہے۔آپ نے نماز کو محبت ِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ قرار دیا جبکہ ایک صحابی
نے آپ سے پوچھا کہ کون سا عمل خدا کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ تو آپ نے فرمایا:اَلصّلَاَۃُ عَلیٰ وَقْتِھَا وقت پر نماز پڑھنا۔(بخاری،ص44،حدیث:528)پھر نماز کو گناہوں کا کفارہ قرار
دیتے ہوئے فرماتے ہیں:إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ
لَيُصَلِّي الصَّلَاةَ يُرِيدُ بِهَا وَجْهَ اللهِ، فَتَهَافَتُ عَنْهُ ذُنُوبُهُ
كَمَا يَتَهَافَتُ هَذَا الْوَرَقُ عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةجب مسلمان اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اسی
طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت سے پتے جھڑ رہے ہیں۔
(مسند احمد،9 / 178،
حدیث:23768)
ایک موقع پر آپ نے نمازوں کی اہمیت کو ایک مثال دے کر واضح
فرمایا: سوچو تو سہی اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ روزانہ اس میں
پانچ دفعہ نہائے تو کیا کہتے ہو کہ اس کے جسم پر میل کچیل باقی رہ جائے گا؟ لوگ
عرض گزار ہوئے کہ ذرا بھی میل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا: یہی پانچوں نمازوں
کی مثال ہے کہ ان کے ذریعے اللہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔(بخاری ،1/196،رقم:528)